بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الاول 1446ھ 12 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ مکان میں اپنے حصہ کو بیچنے سے شرکت کا ختم ہونا


سوال

 2001میری دادی کا انتقال ہوا تھا،اس وقت ان کے ورثاء میں 4 بیٹے اور ایک بیٹی تھی(دوسری بیٹی کا انتقال دادی سے پہلے ہوگیا تھا)، پھر ان کے ترکہ کو شرعی لحاظ سے تقسیم کردیا گیا تھا،دادی کی بیٹی(میری پھوپھی)کو  حصہ ایک مکان ملا ، جس میں ان کے ساتھ میرے والد اور چچا بھی شریک تھے،ان کے حصہ کی رقم 125000روپے بنی تھی، میرے والد اور چچا نے ان سے ان کا حصہ خرید لیا اور اس کی رقم انہیں دے دی، آدھی رقم(62500روپے) میرے والد صاحب نے اور آدھی  چچا نے دی، پھر فائل نام کروانے سے پہلے بجلی کے میٹر  کی وجہ سے جھگڑا ہوگیا اور اس وقت فائل نام نہ ہوسکی،اب ہم اسے نام کروانا چاہتے ہیں،اس میں دادی کے تمام ورثاء کے دستخط ضروری ہیں، اس لیے ہم نے سب ورثاء سے  دستخط کروائے،لیکن پھوپھی نےدستخط کرتے ہوئے کہا کہ میں موجودہ قیمت کے لحاظ سے اپنا حصہ لوں گی، انہیں کہاگیا کہ آپ اپنا حصہ لے چکی ہیں تو اب پھوپھی کہہ رہی ہیں اس بارے میں جو شرعی فیصلہ ہوگا میں اس کے مطابق عمل کروں گی،آپ راہ نمائی فرمائیں اس بارے میں شرعی فیصلہ کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب سائل کی پھوپھی نے اپنی والدہ(سائل کی دادی)کے ترکہ سےملنے والےمکان میں اپنےحصہ  کو اپنی رضامندی سے مکان میں  دیگر دو شریک(سائل کے والدا ور چچا)کو فروخت کردیا اوراس کی قیمت بھی وصول کرلی،تو اب وہ مکان سائل کے والد اور چچا کی ملکیت ہے،لہذا  سائل کی پھوپھی کا یہ کہنا کہ میں موجودہ قیمت کے لحاظ سے اپنا حصہ لوں گی، درست نہیں  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا اشترى أحد الشريكين جميع الدار المشتركة من شريكه قلت: علم من هذا ما يقع كثيرا، وهو أن أحد الشريكين في دار ونحوها ‌يشتري ‌من ‌شريكه ‌جميع ‌الدار ‌بثمن ‌معلوم فإنه يصح على الأصح بحصة شريكه من الثمن ."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:57، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601101762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں