بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مشترک جائیداد کے حصوں پرہرایک شریک کو اجارہ پر دینے کا ذمہ دار بنانا


سوال

تین آدمیوں نے ایک جائیداد برابرسرابر  رقم ملاکر مشترک طور پر  خریدی ہے،   جس میں گراؤنڈ فلور پر رہائش گاہ اور ایک دوکان ہے، اور اوپر دومنزلہ مزید  رہائش گاہ بھی ہے۔ان تین آدمیوں نے معاہدہ اس طرح کیا  ہے کہ ہر ایک شریک کو جائیداد کے کسی ایک حصہ اور پورشن کے اختیارات  دیے جائیں گے۔ اور اس میں درج ذیل شقیں ہوں گی:

1۔ ہر ایک شریک اپنے حصے/ پورشن کا مالک کرایہ اور دیکھ بھال کی حد تک رہے گا، یعنی کرایہ کی وصولیابی اور کرایہ دار کو  لا نا یا فارغ کرنا   اور کرایہ طے کرنا وغیرہ سب اُسی کی ذمہ داری ہوگی،

2۔اور ہر قسم کے اخراجات بشمول بجلی، پانی، اور ٹوٹ پھوٹ مرمت کا ذمہ دار ہوگا۔

3۔ کرایہ دار موجود ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ہر فریق پر  اپنے حصہ/ پورشن کا کرایہ لاگو ہوگا۔

اس کے بعد ماہانہ پوری جائیداد سے جتنی رقم حاصل ہوگی  وہ رقم آپس میں برابر سرابر  تقسیم کریں گے۔ تو آیا ان کا یہ معاہدہ درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ تینوں افراد کا برابر نقد ملاکر مشترکہ پراپرٹی خریدنا اور برابر شریک ہونے کا معاملہ کرنا، اصطلاح شرع  میں شرکتِ مفاوضہ کہلاتاہے، جس کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک دوسرے کا کفیل ہوتاہے، اور مذکورہ شراکت داری میں جو  بھی منافع حاصل ہوتے ہیں وہ تمام شرکاء میں برابری کی بنیاد پر مشترک ہوتے ہیں، اسی طرح کاروبار میں ہونے والا نقصان بھی تمام شرکاء میں برابر تقسیم ہوتاہے۔ پس مسئولہ صورت میں انتظامی معاملات کی حد تک تو تینوں فلور کی دیکھ بھال کی تقسیم کرنے کی گنجائش ہوگی، تاہم ہر شریک کو اس کے انتظامی حصہ کے نقصان کا ذمہ دار ٹہرانا اور مہینے کے آخر میں کرایہ دار موجود نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنی جیب سے کرایہ بھرنے کا پاپند کرنا شرطِ فاسد ہے، جس سے شرکت  فاسد ہوجائے گی۔ لہذا سوال میں ذکر کردہ دوسری اور تیسری شرط  کو حذف کرکے معاملہ کیا جائے، البتہ انتظامی طور پر دیکھ بھال کی ذمہ داری تقسیم کی جاسکتی ہے۔

درر الحکام میں ہے:

"مثلما يتصرف صاحب الملك المستقل في ملكه كيفما شاء فأصحاب الملك المشترك يتصرفون أيضا بالاتفاق كذلك) مثلما يتصرف صاحب الملك المستقل في ملكه كيفما شاءفلجميع أصحاب الملك المشترك أن يتصرفوا بالاتفاق على ذلك الوجه أي كيفما يشاءون، يعني أنهم يقتدرون على التصرف على ذلك الوجه إذا كانوا متفقين في أي قسم من أقسام الملك المشترك المبينة آنفا. وحكم هذه المادة يجري في كتب فقهية عديدة، وبيان ذلك: البيع - للشركاء في الملك المشترك أن يبيعوه بالاتفاق، مثلا: لو باع اثنان الدار أو الساحة أو الحيوان أو الثياب أو الكروم أو الكيلي أو العددي المتقارب أو الوزني المشترك بينهما لآخر فالبيع صحيح ويقسم الثمن بينهما بنسبة حصصهما. انظر كما أنه في صورة خلط أو اختلاط الأموال فللشريكين أن يبيعا بالاتفاق المخلوط أو المختلط للآخر. الإجارة - للشركاء في الملك المشترك تأجيره لآخر بالاتفاق، مثلا إذا أجر اثنان الدار أو الساحة أو الحيوان أو الكروم المشتركة بينهما لآخر بالاتفاق فالإيجار صحيح. انظر المادةويقسم بدل الإجارة بينهما بنسبة حصصهما. انظر المادة؛ لأن الغنم بالغرم."

(کتاب الشرکات، الباب الأول، الفصل الأول، المادة: 1069، ط: دار الجيل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا عرف هذا فنقول: إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويًا أو متفاضلًا، فلا شكّ أنه يجوز و يكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما و الوضيعة على قدر المالين متساويًا و متفاضلًا؛ لأنّ الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج: 6، ص: 62، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605101406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں