بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترک گاڑی میں کسی ایک شریک کا ذاتی ملکیت کا دعوی کرنا


سوال

ہم سب ایک ساتھ ایک گھرمیں رہتے تھے،گھر کاسارا خرچہ میں اٹھاتاتھا،میرے ایک بیٹے نے ایک گاڑی خریدی ،جس کی خریداری میں میں نے بھی پیسے دیے تھے،میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی جائیداد تمام اولاد کے درمیان برابر تقسیم کردی،اب میرا بیٹا یہ کہہ رہاہے کہ گاڑی صرف میری ہے۔

اب پوچھنایہ ہے کہ کیا واقعۃً وہ گاڑی صرف اسی کی ہےیا ہمارا بھی اس میں سے کچھ حصہ ہے؟

واضح رہے کہ گاڑی کی خریداری میں 2لاکھ روپے میں نے اپنے دئیے تھے،اور میری بیوی نے چار تولہ سونا دیاتھا،اور یہ رقم صرف اس لیے دی تھی گاڑی سب میں مشترک ہوگی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنے بیٹے کو 2لاکھ روپے گاڑی خریدنے کے لیے دیے تھے،اور سائل کی بیوی نے چار تولہ سونا بیچ کرگاڑی خریدنے کے لیے رقم دی تھی،اور بقیہ پیسے سائل کے بیٹے نے لگاکر گاڑی خریدی ہے تو یہ گاڑی ان تینوں کے درمیان اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے مشترک ہے،سائل کے بیٹے کا یہ کہناکہ" گاڑی صر ف میری ہے " درست نہیں ہے،البتہ اب تقسیم کی دوصورتیں ہیں،ایک تو یہ ہے کہ گاڑی بیچ کر اس کی رقم اسی تناسب سے تقسیم کی جائے جس تناسب سے خریدی تھی،یابیٹا گاڑی اپنے پاس رکھ لے ،اورماں باپ کو ان کی رقم اُن کے حصوں کے اعتبار سے  واپس کردے ۔

تنقیح  الحامدیۃ میں ہے :

"(سئل) فيدار مشترکة بین زید وعمرو غیر قابلة للقسمة سکنھا زید وحدہ ولایرضي عمرو بالسکني معه فیھا و قال اِمّا أن تؤجرني حصّتك او تستاجر منّي حصّتي أو یسکنھا کلّ بمفردہ بحسب حصته مدّۃ فھل له ذالك؟

(الجواب) نعم و یأمر القاضي زیدا باختیار وجه من الأوجه الثلاثة أو یخرج منھا زید و توجّر لأجنبي و یقتسمان الأجرۃ بحسب حصصھا والحالة هذه ،و أفتي بذالك المرحوم الجدّ عبد الرحمٰن أفندي العمادي."

(کتاب الشرکة في الفصل الاول/ص۔87)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں