بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشتبہات سے متعلق حدیث کا مطلب


سوال

میں نے ایک ویب سائٹ پر یہ حدیث پڑھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: ’’وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِہَاتٌ لاَ یَعْلَمُہُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقٰی الشُّبُہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُہَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ۔‘‘ ’’حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ،پس جوشخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا،اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا ۔‘‘ اس کو پڑھنے کے بعد میں ہر وہ چیز جو کھانے کے لحاظ سے مشکوک ہو، کاروبار کے لحاظ سے مشکوک ہے ان سب سے بچنا شروع کر دیا۔ میں چکن سے پرہیز کرنے لگا کہ genetic modification کی وجہ سے حرام کی آمیزش نہ ہو۔ میں ہر کاروبار کو کس نہ کسی شک والی چیز کی وجہ سے نہ اپناتا ،مثال کے طور پر گاڑی نہیں چلاتا کہ اس کے دھوئیں لوگوں کا نققصان ہے کہیں ناجائز نہ ہو، میں کپڑے کا کاروبار کرنے سے بھی ڈرتا ہوں کہ کپڑے پر جو پھول پتیاں بنی ہوتی ہیں وہ بنانا کہیں ناجائز نہ ہو ؛کیونکہ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ الله تعالیٰ کی تخلیق کی نقل نہیں کرنی چاہیے۔ میں موبائل میں آن لائن کام نہیں کرتا کہ موبائل کی سکرین کی شعاعیں لوگوں کی آنکھوں کو نقصان نہ پہنچا رہی ہوں، اس طرح کہیں نقصان دہ چیز میں معاونت نہ ہوجائے؛ کیونکہ میں نے پڑھا تھا کہ غلط چیز میں معاونت بھی ناجائز ہے۔ اسی طرح ہر کاروبار میں ہر نوکری میں میرا کوئی نہ کوئی شک مجھے روک دیتا ہے۔ میری زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے اور کوئی کاروبار کوئی کام میں نہیں کر سکتا ؛ کیوں کہ کوئی نہ کوئی شک ہر کاروبار میں ہے۔ آپ سے اس مسئلے کے بارے میں تفصیلی اور پر دلائل جواب کی درخواست کرتا ہوں کیونکہ میرا ضمیر کمزور دلائل والی بات کو جس کا قرآن وحدیث سے حوالہ نہ ہو، نہیں مانتا۔ آپ کا بہت شکرگزار رہوں گا۔

جواب

اس حدیث کی شرح میں  علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتےہیں:  اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں تین قسم کی ہیں:(1) ۔۔۔واضح حلال جس کی حلت میں کوئی خفا اور پوشیدگی نہ ہو، جیسے روٹی اور پھل کھانا، اور جیسے بات کرنا، چلنا وغیرہ۔( 2)۔۔۔ واضح حرام (جس کی حرمت میں کوئی  خفا اور پوشیدگی نہ ہو): جیسے شراب،بہتا ہوا  خون، زنا، جھوٹ وغیرہ۔3)۔۔۔ جہاں تک مشتبہ کا تعلق ہے: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حلال یا حرام ہونا واضح نہ ہو؛ اس لئے اکثر لوگ اس کو نہیں پہچانتے۔ البتہ علما کرام اس کے حکم کو کسی نص یا قیاس  یا استصحاب حال وغیرہ سے پہچانتے ہیں۔ لہذا اگر کسی چیز کے حلال اور حرام ہونے میں تردد واقع ہو، واضح نہ ہو کہ یہ حلال ہے یا حرام، نہ اس  بارے میں کوئی نص اور نہ کوئی اجماع ، تو مجتہد اس میں اجتہاد کرےگا، اور وہ دلیل شرعی سے اس کا حکم متعین کرے گا کہ یہ حلال  ہے یا حرام، جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ چیز مشتبہ نہیں رہے گی پھر وہ حسبِ اجتہاد ِمجتہدحلال ہوگی یا حرام۔

لہذا سائل خواہ  مخواہ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالے۔ سائل نے از خود اس حدیث کا جو مطلب سمجھا ہے وہ غلط ہے،اور اس کی بنیاد پر  جتنی چیزوں کو ناجائز سمجھا ہے وہ بھی غلط ہے۔جس چیز کے حوالے سے بھی سائل کو اشتباہ ہو تو  علماء کرام سے پوچھ کر اس کا حکم معلوم کرے، از خود حکم نہ لگائے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وقال النووي: معناه أن الأشياء ثلاثة أقسام: حلال واضح لا يخفى حله كاكل الخبز والفواكه، وكالكلام والمشي وغير ذلك. وحرام بين: كالخمر والدم والزنا والكذب واشباه ذلك. واما المشبهات: فمعناه أنها ليست بواضحة الحل والحرمة، ولهذا لا يعرفها كثير من الناس، وأما العلماء فيعرفون حكمها بنص أو قياس أو استصحاب وغيره، فإذا تردد الشيء بين الحل والحرمة، ولم يكن نص ولا إجماع، اجتهد فيه المجتهد فألحقه بأحدهما بالدليل الشرعي، فإذا ألحقه به صار حلالا أو حراما".

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: باب فضل من استبرأ لدينه (1/ 299)، ط. دار احياء التراث العربي،بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں