بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

مشتبہ افراد سے ادویات خریدنے کا حکم


سوال

 ہمارا میڈیکل اسٹور ہے، اس کے لیےہم مختلف لوگوں سے ادویات لیتے ہیں، اسی طرح ایک شخص ہے جو ...... ہسپتال میں کام کرتا ہے،وہ ہمیں بہت سستی ادویات دیتا ہے، ہمارے خیال میں وہ ادویات صحیح طریقے سے حاصل نہیں کرتا مثلاً: چوری کرتا ہے یا قریب المرگ مریض کے لیے زائد ادویات منگوانا تاکہ مریض کی وفات کے بعد ان ادویات کو فروخت کر دے، اسی طرح اور بھی کئی حیلے ہیں اور اسی طرح کسی  ایسے شخص سے لینا  جو اسے علاج کے لیے مفت ملی ہو۔

نوٹ : ہمیں یقین نہیں ہے کہ وہ چوری کرتا ہے یا صحیح ذرائع سے حاصل کرتا ہےاور ہم پوچھ بھی نہیں سکتے ان مسائل کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ ادویات  چوری کی ہیں یا قرائن سے  غالب گمان یہ ہے کہ یہ  چوری کے ہیں یا وہ کسی دوسرے مشتبہ طریقہ سے حاصل کی گئی ہوں ، تو شرعاً ایسی ادویات  خریدنا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاملات رکھنا بھی شرعا جائز نہیں ہے۔

 السنن الكبرى میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " ‌من ‌اشترى ‌سرقة ‌وهو ‌يعلم أنها سرقة فقد شرك في عارها وإثمها ".

(‌‌كتاب البيوع، ‌‌باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ج:5، ص:547، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

ترجمہ:"حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جس نے چوری کی چیز خریدی اور وہ جانتا ہے کہ یہ چوری کی چیز ہے تو وہ اس کے عیب اور گناہ میں شریک ہو گیا"۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله الحرمة تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ"

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:98، ط:ایچ ایم سعید)

مجموع الفتاوی میں ہے:

"‌فمن ‌علمت ‌أنه ‌سرق مالا أو خانه في أمانته أو غصبه فأخذه من المغصوب قهرا بغير حق لم يجز لي أن آخذه منه؛ لا بطريق الهبة ولا بطريق المعاوضة ولا وفاء عن أجرة ولا ثمن مبيع ولا وفاء عن قرض فإن هذا عين مال ذلك المظلوم."

(الجزء التاسع: البيع، أصول التحریم والتحلیل، ج:29، ص:323، ط:مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف المدينة المنورة السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں