میں ایک بین الاقوامی تنظیم میں کام کر رہا ہوں جو ولڈ بینک سے منسلک ادارہ ہے۔میرے کام کا تعلق مالیات یا کاروباری لین دین (جس میں ربا یا سودشامل ہے) سے نہیں ہے،لیکن یہاں ایک ملازم کی حیثیت سے میں اس الجھن میں ہوں کہ کیا میں بھی ربا (سودی) کاروبار کا حصہ ہوں؟یہ تنظیم نجی شعبہ میں بطور شیئر ہولڈر سرمایہ کاری کرتی ہے اور نجی شعبے کو فنڈز بھی فراہم کرتی ہے۔
موازنے کے طور پر میں نے یہ دیکھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ولڈ بینک سے فنڈز لے رہا ہے اور بطور سرکاری ادارہ اسٹیٹ بینک سودی کاروبار سے کماتا ہے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ بھی دیتا ہے،اس لیے دونوں نظاموں میں فرق بہت کم ہے،یہاں میں اپنی نوکری اور آنکھیں بند کرنے کا جواز پیش نہیں کرنا چاہتا۔میں روزانہ کی بنیاد پر متبادل ملازمتوں کے لیے درخواست دے رہا ہوں اور جیسے ہی مجھے دوسری نوکری ملے گی اسے چھوڑ دوں گا۔براہِ کرم میری راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میری موجودہ ملازمت جہاں میں براہِ راست ”سود“کا کام نہیں کر رہا بلکہ اُس ادارہ کا حصہ ہوں جو یہ کام کرتی ہے،کسی بھی لحاظ سے جاری رکھنے کا جواز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں ملازمت کو جاری رکھنے کا مدار اس بات پر ہے کہ یہ ادارہ حرام کاروبار نہیں کرتا ہو اور جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ بھی حلال کام سے حاصل ہوئی ہو۔ لہذا اگر آپ ایسے ادارے سے منسلک ہیں جو براہ راست سودی لین دین نہیں کر رہا اور اس کا کام بھی حرام نہیں ہے تو ملازمت کو جاری رکھا جاسکتا ہے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو متبادل صورت اختیار کی جائے۔جب تک متبادل ملازمت نہ مل جائے بامر ِ مجبوری اس کو جاری رکھاجائے،جیسے ہی متبادل ملازمت مل جائے اس کو چھوڑ دیا جائے۔
رد المحتار میں ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه ففي الذخيرة: سئل الفقيه أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمراء السلطان ومن الغرامات المحرمات وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن ذلك الطعام غصبا أو رشوة۔"
(رد المحتار علی الدر المختار، 99/5، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100857
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن