بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی سے بچنے کے لیے اپنے اوپر کچھ لازم کرنا


سوال

 اگر گناہ(مشت زنی) سے بچنے کے لیے قرآن اٹھایا جائے اور بولا جاۓکہ اگر میں یہ کام کروں تو ایسا ہو جائے، ویسا ہو جائے اور اگر اسی طرح قرآن پاک میں یہ لکھ کر کہوں اگر یہ کام کروں تو کاروبار تباہ ہو جائے ،کوئی نقصان ہوجائے ۔

براۓ مہربانی بتادیں کہ اب میں کیا کروں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرکوئی مشت زنی کے گناہ میں مبتلا ہے اوروہ اس سے بچنا چاہتا ہے،تو اس کا طریقہ یہ ہےجب اس کو اس گناہ کا خیال آئےتو وہ فوراً اس خیال کو ترک کردے اور اپنے آپ کو دوسرے جائز کاموں میں مشغول کرلے،اگر پھر بھی یہ خیال ختم نہ ہو تو وہ یہ سوچے کہ ا گر یہ گناہ کرتے وقت مجھے میرے والدین  یا کوئی بھی ایسے رشتہ و تعلق والا شخص جس سے انسان اپنا گناہ چھپانا چاہے مثلاً اساتذہ یا شاگرد وغیرہ  دیکھ لیں تو کیا میں ان کے سامنے یہ گناہ کرسکوں گا؟ یا شرمندہ ہوں گا؟ پھر یہ سوچے  کہ جب میں والدین وغیرہ کے سامنےیہ گناہ کرنےسے شرماتا ہوں تو اللہ تعالیٰ جو ہر وقت مجھے دیکھ رہے ہیں، جو میرے خالق اور حقیقی محسن ہیں اور حساب و کتاب پر مکمل قادر ہیں، ان کے سامنے میں کس منہ سے حاضر ہوں گا، نیز یہ سوچے  کہ قیامت کے دن اگر والدین، بیوی بچوں، بہن بھائیوں، اساتذہ، شاگرد، دوستوں اور تمام مخلوق کے سامنے بتادیاجائے کہ فلاں بن فلاں نے فلاں دن فلاں وقت یہ گناہ کیا ہے، تو اس وقت میری کیا حالت ہوگی؟،اسی طرح اس کو چاہیے کہ وہ یہ سوچے کہ اس گناہ کے کرنے پر کتنی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،مثلاً حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظر ِ کرم فرمائیں گے...ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے)" اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ" اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے ہاتھ حاملہ ہوں گے"اگر ان سب باتوں کا تصور ذہن میں ہوگا تو انشاء اللہ اس گناہ کا ترک کرنا آسان ہوجائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس پر لازم ہے کہ نمازوں کی پابندی کرےاور اللہ تعالیٰ سے اس گناہ اور تمام گناہوں سے بچنے کی خصوصی دعا کرے،روزے رکھے،کیوں کہ روزے رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہےاور اگر نکاح نہیں ہوا تو گھر والوں کو نکاح کرانے پر آمادہ کرے،نیز تنہائی اور غلط ماحول میں رہنے سےگریز کرے،شہوت انگیز لٹریچر،تصاویروغیرہ ہر گز نہ دیکھے۔

باقی اگرکوئی اس گناہ سے بچنے کے لیے قسم یا نذر کے الفاظ کے بغیر صرف قرآن ہاتھ میں اٹھائے یااس طرح کہےیا لکھے کہ اگر میں یہ کام کروں تو میں فلاں کام کروں گاوغیرہ وغیرہ تو اس کے اس طرح کہنے سے اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا،کیوں کہ قسم یا نذر کے منعقد ہونے کے لیے ان کے الفاظ ہونا ضروری ہے۔ہاں!البتہ اگر کوئی نذر یا قسم کے الفاظ  کے ساتھ اپنے اوپر کچھ لازم کردےیعنی اس طرح کوئی بات کہے کہ اگر میں نے یہ گناہ کیاتو اللہ کے لیے مجھ پر فلاں کام کرنا لازم ہوگا،مثلاً دس روزے رکھوں گاتو پھر اگر اس کے بعدوہ یہ گناہ کرے گا تو اس پر لازم ہوگا کہ یا تو وہ اپنی نذر پوری کرے،یعنی دس روزے رکھےیا پھر نذر پوری نہ کرنے کی صورت میں قسم کا کفارہ دےاور قسم کا کفارہ  یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے   یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے،اگرکھانا کھلانے یا کپڑا پہنانے پر قدرت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھے،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا،اسی طرح اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو از سرِ نو تین روزے رکھنا لازم ہوگا۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه ‌الناكح ‌يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره."

(ج:7 ،ص:329، ط:مکتبة الرشد)

وفیه ایضاً:

"عن أنس بن مالك قال: يجيء ‌الناكح ‌يده يوم القيامة ويده حبلى."

(ج:7، ص:330، ط:مکتبة الرشد)

الدر المختار میں ہے:

"(و) إن علقه (بما لم يرده كإن زنيت بفلانة) مثلا فحنث (وفى) بنذره (أو كفر) ليمينه (على المذهب) لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه فيخير ضرورة."

و فی الرد تحته:

"أنظر لو كان فاسقا يريد شرطا هو معصية فعلق عليه كما في قول الشاعرعلي إذا ما زرت ليلى بخفية … زيارة بيت الله رجلان حافيا،فهل يقال إذا باشر الشرط يجب عليه المعلق أم لا؟ ويظهر لي الوجوب لأن المنذور طاعة وقد علق وجوبها على شرط فإذا حصل الشرط لزمته، وإن كان الشرط معصية يحرم فعلها لأن هذه الطاعة غير حاملة على مباشرة المعصية بل بالعكس، وتعريف النذر صادق عليه ولذا صح النذر في قوله: إن زنيت بفلانة لكنه يتخير بينه وبين كفارة اليمين لأنه إذا كان لا يريده يصير فيه معنى اليمين فيتخير."

(کتاب الأيمان، ج:3، ص:738، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا."

(كتاب النذر، ج:3، ص:740، ط:سعيد)

رد المحتار میں ہے:

"في الخانية قال: إن برئت من مرضي هذا ذبحت شاة فبرئ لا يلزمه شيء إلا أن يقول فلله علي أن أذبح شاة اهـ: وهي عبارة متن الدرر وعللها في شرحه بقوله لأن اللزوم لا يكون إلا بالنذر والدال عليه الثاني لا الأول اهـ.فأفاد أن عدم الصحة لكون الصيغة المذكورة لا تدل على النذر أي لأن قوله ذبحت شاة وعد لا نذر."

(كتاب الإيمان، ج:3، ص:740، ط:سعيد)

الدر المختار میں ہے:

"(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين)كما مر في الظهار (أو كسوتهم..(وإن عجز عنها) كلها (وقت الأداء) عندنا، حتى لو وهب ماله وسلمه ثم صام ثم رجع بهبة أجزأه الصوم مجتبى. قلت: وهذا يستثنى من قولهم الرجوع في الهبة فسخ من الأصل (صام ثلاثة أيام ولاء)."

(رد المحتار، كتاب الأيمان، ج:3، ص:726، ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"وركنها اللفظ المستعمل فيها."

(رد المحتار، کتاب الأیمان، ج:3، ص:704، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"محض قرآن مجید ہاتھ میں لے کربات کہنے سے قسم نہیں ہوجاتی،جب تک لفظِ قسم نہ کہے۔"

 

(ج:14،ص:42،ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں