بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی سے کیسے بچا جائے؟


سوال

 میری شہوت بہت زیادہ ہے، شہوت سے بہت تنگ آچکاہو ں ،اکثر ہاتھ  سے انزال کردیتاہوں، کوئی حل بتائیں، یاکوئی ایسی گولی یا  دوا وغیرہ بتائیں  جودومہینے کے لیے شہوت کوختم کردے،اور  پھر واپس بھی آجائے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر شہوت کا مادہ رکھا ہےاور اس کو پورا کرنے کا فطری اور پاکیزہ طریقہ بھی نكاح کی صورت میں بتایا ہے،غیر فطری طریقہ سے شہوت پورا کرنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور لعنت کا سبب بتایا گیا ہے،لہٰذا صورت ِ مسئولہ  میں اس عادتِ بد سے بچنے کے لیے سائل کو چاہیے کہ اگر  نکاح کے بعد مہر و نفقہ کی استطاعت ہوتو نکاح کرلے،اور اگر نکاح کی قدرت نہیں ہے تو دوائیوں وغیرہ کو استعمال کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائےہوئے طریقے یعنی کثرت سے روزے رکھنا شروع کردے،اور اس کے ساتھ ساتھ  سائل کو چاہیے کہ جن چیزوں سے شہوت میں ہیجان پیدا ہوتا ہے ان چیزوں کو بالکل چھوڑدے،  جن میں بد نظری، بری چیزیں  دیکھنا اور سننا شامل ہے،ان چیزوں پر عمل کرنے سےان شاء اللہ شہوت میں اعتدال آجائے گااور  گناہوں سے حفاظت ہوجائےگی، روزے رکھیں یا شہوت کم کرنے کی گولی بھی لے  سکتے ہیں۔

"روح المعاني"میں  ہے:

"ومنه يعلم أن الاستمناء باليد إن كان قد جرت عادة العرب على إطلاق ما وراء ذلك عليه دخل عند الجمهور ...ومن الناس من استدل على تحريمه بشيء آخر نحو ما ذكره المشايخ من قولہ  صلى الله عليه وسلم: "ناكح اليد معلون"وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم وعن عطاء: "سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم "والله تعالى أعلم، وتمام الكلام في هذا المقام يطلب من محله، ولا يخفى أن كل ما يدخل في العموم تفيد الآية حرمة فعله على أبلغ وجه ونظير ذلك إفادة قوله تعالى:ولا تقربوا الزنى [الإسراء: 32]حرمة فعل الزنا فافهم."

(ص:214،ج:9،سورة النور،ألآية:6،ط:دار الكتب العلمية)

"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود  رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع ‌فعليه ‌بالصوم، فإنه له وجاء. متفق عليه."

"من استطاع منكم الباءة":... وفيه حذف مضاف أي: مؤنة الباءة من المهر والنفقة،..."فليتزوج"قيل: الأمر فيه للوجوب، لأنه محمول على حالة التوقان بإشارة قوله: " يا معشر الشباب " فإنهم ذو التوقان على الجبلة السليمة ..."وأحصن" أي: أحفظ للفرج أي: عن الوقوع في الحرام "ومن لم يستطع" أي: مؤن الباءة "فعليه ‌بالصوم"... "فإنه" أي: الصوم "له" أي: لمن قدر على الجماع ولم يقدر على التزوج لفقره "وجاء" بالكسر بالمد أي: كسر لشهوته، وهو في الأصل رض الخصيتين ودقهما لتضعف الفحولة، فالمعنى أن الصوم يقطع الشهوة ويدفع شر المني كالوجاء."

(ص:2041،ج:5،کتاب النکاح،ط:دار الفکر،بیروت)

رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"ويكون واجبا عند التوقان فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه."

"قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الإستمناء بالكف، فيجب التزوج، وإن لم يخف الوقوع في الزنا."

(ص:6،ج:3،کتاب النکاح،ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں