بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی نہ کرنے کا وعدہ کرکے توڑنے کا حکم


سوال

میں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں نے مشت زنی کی تو میری  پانچ دنوں کے نمازیں قبول نہ کرنا، تو اس صورت میں وعدہ ٹوٹ جانےمیں کیا کفارہ ہے؟

جواب

از روئے شرع یہ مشت زنی کاعمل ناجائز اورحرام ہے ، کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے   ... اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )، لہذا سائل اگر مالی اعتبار سے شادی کی استطاعت رکھتا ہوتو اس پر نکاح کرکے اپنی اس حاجت کو شریعت اور فطرت کے مطابق پورا کرنا لازم ہے،بصورتِ دیگر اس پر روزے رکھنا لازم ہے،کیوں کہ  روزوں کی وجہ سے جہاں تقوی کی بنیاد پر وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے وہیں روزے کی حالت میں بھوکا اور پیاسا رہنے کی وجہ سے شہوت کا زور ٹوٹتا ہے ۔

صورتِ مسئولہ میں سائل نے اللہ تعالیٰ سے مشت زنی نہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا،اس کے توڑنے پر کوئی مخصوص کفارہ تو نہیں ہے، البتہ وعدہ خلافی  گناہ ہے؛ اس لیے اس پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ اور استغفار کرنا لازم ہو گا،نیز مشت زنی کا جس قبیح عمل کا ارتکاب کیا ہے،اس پر بھی توبہ و استغفار کرنا لازم ہے  ۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال : مسئلہ احکام نکاح سے متعلق جاننا چاہتاہوں کہ نکاح کا حکم مطلق ہے یا اس کا حکم حال کے مطابق بدلتا رہتا ہے ؟

جواب:نکاح کا حکم سب کے حق میں یکساں نہیں ہے ، جس پر شہوت غالب ہو کہ بغیر نکاح کے زنا میں مبتلاہوجانے کا مظنہ ہو اور وہ مہر و نفقہ پر قادر ہو ، اس کے ذمہ نکاح کرنا فرض ہے ، نکاح نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔"

(کتاب النکاح،ج:10 ، ص:472 ،ط:ادارۃ الفاروق)

شعب الایمان میں ہے :

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا . قال البخاري في التاريخ".

(فصل في تحريم الفروج و ما يجب التعفف عنها ، ج:7 ، ص:329 ، رقم الحديث: 5087 ، ط: مكتبة الرشد)

فتاوی شامی میں ہے :

"ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الإعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك... وفي الرد : قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الإستمناء بالكف، فيجب التزوج."

(کتاب النکاح ، ج:3 ، ص:6 ، ط:سعید)

وفیه ايضا:

"وكذا ‌الإستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه...  ‌

وفي رد المحتار : مطلب في حكم ‌الإستمناء بالكف (قوله: وكذا ‌الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء كما سيصرح به وهو المختار كما يأتي لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار (قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم..."

(كتاب الصوم ، باب مايفسد الصوم وما لايفسد الصوم ،مطلب في حكم الاستمناء بالكف ، ج:2 ، ص:399 ، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں