بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی کرنے کا حکم


سوال

احتلام کی وجہ سے اکثر نمازِ  فجر قضا ہو جاتی ہے ، اس وجہ سے اگر نماز فجر کے بعد مجبورًا خود لذتی حاصل کرلی جائے تو  جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ احتلام ہونا ایک فطری چیز ہے،جس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا،اور نہ ہی اس کی بنا پر انسان گناہ کا مستحق ہوتا ہے، نیز احتلام کی بنا  پر نمازِ فجر قضا  کرنے کی اجازت نہیں مل جاتی اور  نہ ہی ایسا کرنا شرعًا  کسی مسلمان کے لیے جائز ہے؛ لہذا اگر سائل کو اکثر احتلام ہوجاتا ہے،تو بآسانی اس کے لیے  کوئی ایسی راہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ جس سے نمازِ فجر  قضا  نہ ہو،  مثلًا  جلدی  اٹھنے کی ترتیب بنالی جائے، آنکھ  کھلنے  کے  بعد ، اٹھنے  میں  سستی  نہ کی جائے، اس لیے کہ کسی بھی فرض نماز کا جان بوجھ کر قضا  کردینا،بہت سخت گناہ کا عمل ہے، اور  آخرت  کے  اعتبار سے بہت سخت تکالیف کا باعث ہے۔

جہاں تک سوال ہے  خود لذتی (مشت زنی) کا ،تو اس کے متعلق اصولی بات یہ ہے کہ نہ تو یہ عام حالت میں جائز ہے،اور نہ  ہی  سائل نے جو عذر پیش کیا،اس حالت میں جائز ہے،بلکہ بہر صورت سخت گناہ کا عمل ہے اور آخرت میں پکڑ کا باعث ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ : "سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ، اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے یعنی مشت زنی کرتا ہے "؛ لہذا سائل کو چاہیے کہ اگر آج تک یہ گناہ کا عمل کبھی کیا ہے،تو اس پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے ،فوراً اس عمل سے باز آجائے،اور آئندہ نہ کرنے کا پکا عزم کرلے،تاکہ اُخروی عذاب سے بچ سکے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"النجاسة إن كانت غليظة وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة."

(كتاب الصلاة، الباب الثالث۔۔۔۔، ج:1، ص:58، ط:دار الفكر۔بيروت)

شعب الایمان میں ہے:

’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ."

(تحريم الفروج وما يجب من التعفف عنها، ج:4، ص:378، رقم:5470، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

ریاض الصالحین میں ہے:

" قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي، فلها ثلاثة شروط:

أحدها: أن يقلع عن المعصية.

والثاني: أن يندم على فعلها.

والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا. فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته.

وإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فشروطها أربعة: هذه الثلاثة، وأن يبرأ من حق صاحبها، فإن كانت مالا أو نحوه رده إليه، وإن كانت حد قذف ونحوه مكنه منه أو طلب عفوه، وإن كانت غيبة استحله منها. ويجب أن يتوب من جميع الذنوب، فإن تاب من بعضها صحت توبته عند أهل الحق من ذلك الذنب، وبقي عليه الباقي."

( مقدمة المؤلف،بداية الكتاب، باب التوبة، ص: 33 - 34 ط: مؤسسة الرسالة )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102874

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں