بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بری فلموں کی عادت ہو تو کیا کرے؟


سوال

میں بری فلمیں دیکھنے کا عادی ہوگیا ہوں اور مشت زنی بھی کرتا ہوں اور مجھ سے یہ گناہ نہیں چھوٹ رہے۔ رہنمائی کردیں!

جواب

بد نظری کرنا، بری فلمیں دیکھنا اور مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے، اس کی حرمت قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}"

[المؤمنون: ۵ تا ۸)

ترجمہ:  اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا ، سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ 

(ترجمہ از شیخ الہند)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’ {فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰئكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ} ، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے‘‘۔

(از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ) (معارف القرآن)

نیز کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے  (یعنی مشت زنی کرتا ہے ) ۔

’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، و لايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، و الناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ."

(شعب الإيمان 7/ 329)

 مذکورہ  حدیث  کے  علاوہ بھی   دیگر  بعض احادیث میں اس فعل پر وعید بیان کی گئی ہے، قرآن و حدیث کی یہ نصوص  ایک  دوسرے کی مؤید ہیں اور  اہلِ علم نے ان احادیث کو قبول کیا ہے۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر شہوت کا غلبہ  رہتا ہو اور نکاح کی استطاعت ہو تو نکاح کرلیجیے، اور  شادی کرنے کی طاقت نہ ہو تو کثرت سے روزے رکھنے چاہییں، ہر وقت باوضو رہنے کا اہتمام کریں، تنہائی میں بالکل نہ رہیں، نیز کسی متبع سنت شیخ سے اصلاحی تعلق بھی قائم کرلیجیے  اور   بیت الخلا/ غسل خانے  میں داخل ہوتے وقت کی دعا پڑھنے کا اہتمام کریں اور مشت زنی سے متعلق وعیدات کو ذہن میں رکھنا بھی  اس قبیح گناہ سے بچنے میں معین ہوگا۔ اور انٹرنیٹ کے استعمال سے مکمل طور پر اجتناب کیجیے، اس کے بجائے خود کو بامقصد اور نیک کاموں  میں ایسا مشغول کرلیجیے کہ ان فضولیات کی طرف دھیان ہی نہ رہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں