ایک شخص جویہ کہتاہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حاجت روا اور مشکل کشا مانتاہوں، اس کا کیا حکم ہے؟ایسے شخص کو امام بنانا کیساہے؟لاعلمی کی بنیاد پر جونمازیں اس کی اقتداء میں پڑھی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
اللہ کے سوا کسی بھی شخص کے بارے میں خواہ کوئی نبی ہو یا ولی ہو، مشکل کشا،حاجت روا کا عقیدہ رکھنا شرک ہے،جو شخص ایسا عقیدہ رکھے گاجاں بوجھ کر اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
تفسير ابن كثيرمیں ہے:
" أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ." ﴿النمل: ٦٢﴾
"ينبه تعالى أنه هو المدعو عند الشدائد، المرجو عند النوازل، كما قال تعالى: وإذا مسكم الضر في البحر ضل من تدعون إلا إياه [الإسراء: 67] وقال تعالى: ثم إذا مسكم الضر فإليه تجئرون [النحل: 53] وهكذا قال هاهنا أمن يجيب المضطر إذا دعاه أي من هو الذي لا يلجأ المضطر إلا إليه، والذي لا يكشف ضر المضرورين سواه."
(ج:6، ص:184، ط:دار الكتب العلمية)
الدرالمختار مع ردالمحتارمیں ہے:
"والصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء (قوله بشروط عشرة) هذه الشروط في الحقيقة شروط الاقتداء، وأما شروط الإمامة فقد عدها في نور الإيضاح على حدة فقال: وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة."
(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج:2، ص:337، ط:رشیدیة)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بہت مشکل مقدمات اور معاملات کو آسانی سے حل فرما دیا کرتے تھے اس لئے ان کو حلال المعضلات" کہتے تھے جس کا فارسی میں ترجمہ مشکل کشا ہے، لیکن ان کی محبت و عقیدت میں غلو کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر مشکل کو خواہ کسی زمانے میں پیش آئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حل کرتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ پریشانی اور مصیبت کے وقت یا علی پکارتے ہیں حتی کہ اللہ پاک سے بھی وہ لوگ بے نیاز ہو گئے اور جملہ امور میں کارساز حقیقی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ہی قرار دے لیا، یہ عقیدہ اور طریقہ اسلام کے خلاف اور شرک ہے اس سے بچنا لازم ہے، یہ مروجہ محفل میلا د بھی ممنون وجہ شغل میلا د بھی ممنوع ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔
حرره العبد محمود غفر له دار العلوم دیو بند ، ۵۸۵/۹/۱۵۔
الجواب بنده محمد نظام الدین عفی عنہ مفتی دارالعلوم دیو بند ، ۵۸۵/۹/۱۵۔"
(مایتعلق بالاستمداد بغیراللہ، ص:1، ص:364، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601102511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن