بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی کا حکم


سوال

 کیا کسی بھی وجہ سے مشت زنی کی جا سکتی ہے اور خصوصًا زنا سے بچنے کے ڈر سے؟ نیز کیا زوجہ ہم بستری کرتے ہوئے یا حیض کی وجہ سے اگر شوہر کے نفس کو ہاتھ میں لے جس کی وجہ سے مرد فارغ ہوجائے، اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

1۔۔ مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے،  اس کی حرمت قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔ ( سورۃ المومنون  ، آیت ، ۵ تا ۸)۔

نیز کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

شعب الإيمان (7/ 329):

’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".

اس لیے اگر نکاح نہیں ہوا ہے اور نکاح کی استطاعت ہے تو جلد از نکاح کرنے کی کوشش کی جائے، ورنہ غلبہ شہوت سے بچنے کے لیے کثرت سے روزوں کا اہتمام کیا جائے، اور ساتھ نیک لوگوں کی صحبت میں  بیٹھنے کا اہتمام اور تنہائی میں رہنے سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہوجائے  اور اس سے بچنے کے لیے کسی نے یہ عمل کرلیا تو یہ زنا جیسے کبیرہ گناہ سے کم درجہ کا ہے۔

2۔۔   حیض کے ایام میں شوہر کی تسکین کے لیے بیوی اگر کوئی تدبیر کرتی ہے تو اس کی گنجائش ہے۔ بلاضرورت اس سے اجتناب کیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 399):

"مطلب في حكم الاستمناء بالكف (قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء كما سيصرح به وهو المختار كما يأتي لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار (قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزباً لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لايقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث: أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.
بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعاً بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلاً حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله: وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضاً ويدل أيضاً على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں