بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 جُمادى الأولى 1446ھ 11 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مشارکت میں متعین نفع طے کرنے کا حکم


سوال

 ایک صاحب نے میرے ساتھ کاروبار میں پیسے انویسٹ کیے ہیں،  اب انہوں نے کہا کہ ان کو ایک مخصوص رقم منافع کی مد میں چاہیے ، چاہے نقصان ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کو اپنا مخصوص منافع چاہیے جبکہ وہ کاروبار میں  پچاس فیصد کے شراکت دار ہیں،تو ان کا یہ عمل جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً  یہ کہناکہ فلاں شریک کو  ہر  مہینے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا سرمائے کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے، حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے؛  اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ  نفع  کی  تعیین حاصل شدہ نفع کے فیصدی تناسب سے  طے کی جائے ،مثلاً  نفع  دونوں  کے  درمیان آدھا آدھا  ہوگا، یا کسی  ایک  فریق  کے  لیے  ساٹھ  فیصد  اور  دوسرے  کے  لیے چالیس فیصد یا دونوں  کے  سرمایہ  کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس  کے  لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے۔نیز اگر  دونوں شریک  ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب  اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ  شرکت میں نقصان ہونے کی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد کسی کی سرمایہ کاری ہے ، اتنے ہی فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا ، نقصان کے باوجود اپنی پوری رقم کا مطالبہ کرنا  یانقصان کے باوجود  نفع کا مطالبہ کرنا شرعاً  ناجائز ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح."

( کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:59، ط:دارالکتب العلمیة۔بیروت)

وفیہ ایضاً:

" والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال."

کتاب الشرکة،فصل فی بیان شرائط جواز انواع الشرکة،ج:6، ص:62، ط:دار الکتب العلمیة۔بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں