بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلسل تین مرتبہ سے زائد کال کرنا


سوال

 کیا تین بار دستک دینے سے ہم یہ بھی مراد لےسکتے ہیں کہ کسی کو ایک وقت میں تین سے زیادہ مرتبہ فون کال نہ کریں؟ 

جواب

واضح رہے کہ  دین و اسلام کی ہدایات میں سے ایک بنیادی ہدایت یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دے، لہذا تین مرتبہ کے بعد مزید دستک دینے سے  بھی اسی وجہ  سے منع فرمایا گیا ہے  کہ صاحب خانہ کو اس سے تکلیف پہنچے گی  اور کسی کو تکلیف پہچانا ناجائز ہے،لہذا مفتی شفیع رحمہ اللہ نے تفسیر معارف القرآن میں سورہ نور کی  آیت نمبر 28 کی ذیل میں  لکھا ہے کہ:

"حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:"إذا استاذن أحدکم ثلاثاً فلم یؤذن له فلیرجع"،  یعنی جب کوئی آدمی تین مرتبہ استیذان کرے اور کوئی جواب نہ آوے، تو اس کو لوٹ جانا چاہئے (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری)  ۔۔۔۔۔۔  (آپ(ﷺ)  نے ان(حضرت سعد رضی اللہ عنہ)  کو طریقہ سنت بتلا دیا کہ تین مرتبہ جواب نہ آنے پر لوٹ جانا چاہیے) ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ استیذان کے بعد جواب نہ آوے تو سنت یہ ہے کہ لوٹ جائے ،وہیں جم کر بیٹھ جانا خلاف سنت اور مخاطب کے لئے موجب ایذا ہے کہ اس کو دباؤ ڈال کر نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔"

(معارف القرآن، سورہ نور، آیت:24:29،  ص:392، ج:6، ط: مکتبہ معارف القرآن)

اسی کی نظیر موجودہ زمانے میں پہ در پہ تین مرتبہ کے بعد بھی کال کرنا ہے، جب دوسرا شخص  تین مرتبہ کال کرنےکے  باوجود فون نہیں اٹھارہا، اس کا مطلب عمومی احوال میں یہ ہے کہ وہ فی الحال بات نہیں کرنا چاہتا، اس کے باوجود اس کو مسلسل کال کرنے کی صورت میں اذیت  ہوتی ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

نیز مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ  نے تفسیر میں مزید یہ بھی لکھا ہے کہ:

"مسئلہ :- بعض لوگ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور کوئی پروا نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے کیا کہنا چاہتا ہے، یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے، جیسے حدیث میں آیا ہے" ان لزورک علیک حقا" یعنی جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے ،کہ اس سے بات کرو اور بلاضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو، اسی طرح جو آدمی ٹیلیفون پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے، اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں ۔"

(معارف القرآن، سورہ نور، آیت:24:29،  ص:394، ج:6، ط: مکتبہ معارف القرآن)

تفسیر رازی میں ہے:

"السؤال الرابع: كم عدد الاستئذان الجواب:

روى أبو هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الاستئذان ثلاث بالأولى يستنصتون، وبالثانية يستصلحون، وبالثالثة يأذنون أو يردون»

وعن جندب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا استأذن أحدكم ثلاثا، فلم يؤذن له فليرجع»

وعن أبي سعيد الخدري قال: «كنت جالسا في مجلس من مجالس الأنصار، فجاء أبو موسى فزعا، فقلنا له ما أفزعك؟ فقال أمرني عمر أن آتيه فأتيته، فاستأذنت ثلاثا، فلم يؤذن لي فرجعت، فقال ما منعك أن تأتيني؟ فقلت قد جئت فاستأذنت ثلاثا فلم يؤذن لي. وقد قال عليه الصلاة والسلام: إذا استأذن أحدكم ثلاثا فلم يؤذن له فليرجع فقال لتأتيني على هذا بالبينة، أو لأعاقبنك. فقال أبي لا يقوم معك إلا أصغر القوم، قال فقام أبو سعيد فشهد له»

وفي بعض الأخبار أن عمر قال لأبي موسى إني لم أتهمك، ولكني خشيت أن يتقول الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم. وعن قتادة الاستئذان ثلاثة: الأولى يسمع الحي، والثاني ليتأهبوا والثالث إن شاءوا أذنوا، وإن شاءوا ردوا، واعلم أن هذا من محاسن الآداب، لأن في أول مرة/ ربما منعهم بعض الأشغال من الإذن، وفي المرة الثانية ربما كان هناك ما يمنع أو يقتضي المنع أو يقتضي التساوي، فإذا لم يجب في الثالثة يستدل بعدم الإذن على مانع ثابت، وربما أوجب ذلك كراهة قربه من الباب فلذلك يسن له الرجوع، ولذلك يقول يجب في الاستئذان ثلاثا، أن لا يكون متصلا، بل يكون بين كل واحدة والأخرى وقت، فأما قرع الباب بعنف والصياح بصاحب الدار، فذاك حرام لأنه يتضمن الإيذاء والإيحاش، وكفى بقصة بني أسد زاجرة وما نزل فيها من قوله تعالى: إن الذين ينادونك من وراء الحجرات أكثرهم لا يعقلون."

(سورة النور (24) : الآيات 27 الى 29،‌‌الحكم السادس في الاستئذان،357/23،دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100935

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں