بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلسل ریح خارج ہونے کی وجہ سے نماز کا حکم


سوال

ایک پینسٹھ سالہ خاتون جو اٹھنے بیٹھنے میں بھی مشقت محسوس کرتی ہیں، ان کو کبھی خروج ریح کی اتنی شکایت ہو جاتی ہے ایک نماز بھی ادا نہیں کر پاتیں،لیکن کبھی ٹھیک ہو جاتی ہیں تو کیا یہ معذور کہلائیں گی یا نہیں؟ یعنی کسی نماز میں ٹھیک ہوتی ہیں کسی میں نہیں ؟ ان کے لیے کیا حکم ہے ؟

جواب

اگر  مذکورہ خاتون  کو  ریح خارج ہونے  کی ایسی بیماری ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں  باوضو ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر  نہ ملے، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہ ملے  کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکیں  تو  مذکورہ خاتون   شرعاً معذور کہلائیں گی  اور  معذورین کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کریں اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہیں فرائض اور نوافل ادا کریں اور تلاوت قرآن کریم کرلیں (خواہ اس ایک وقت کے درمیان میں بار بار ریح خارج ہوتی رہے، بشرطیکہ کوئی اور ناقضِ وضو پیش نہ آئے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو  وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔

مریض شرعی ہونے کے  لیے ضروری ہے کہ  ایک بار  ایسا وقت  آ جائے جس میں مریض کو  نماز کے مکمل وقت میں باوضو ہو کر اُس عذر کے بغیر نماز پڑھنے کا موقع نہ مل سکے، پس اگر ایک مرتبہ ایسا ہو چکا ہو تو ایسا مریض مریضِ شرعی کہلائے گا اور اس کا وہی حکم ہو گا جو اوپر بیان ہوا۔

اور ایسا شخص اس وقت تک شرعی معذور رہے گا جب تک کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر کے بغیر نہ گزر جائے،چناں چہ  اگر کبھی ایسا وقت آ  جائے  کہ نماز کے مکمل وقت میں مریض کو عذر پیش نہ آئے  یعنی ریح کے خروج کی صورت پیش نہ آئی تو وہ معذورِ شرعی نہیں کہلا ئے گا اور اس کا حکم معذورِ شرعی والا نہیں ہو گا ، بلکہ ایسے وقت کا انتظار کرنا ہو گا جس میں ریح خارج نہ ہو اور وہ نماز ادا کر سکیں۔

لہذا صورتِ حال کو دیکھ کر فیصلہ کر لیا جائے کہ مذکورہ خاتون مریض ہیں یا نہیں، اسی کے مطابق ان کا حکم ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا  شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں