بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمانوں کے قبرستان میں غیر مسلم کو چوکیداری اور صفائی کے لیے ملازم رکھنے کا حکم


سوال

اگر مسلمانوں کے قبرستان میں چوکیداری اور صفائی کے لیے کوئی مسلمان تیار نہ ہو تو ایسی صورت ِحال میں کسی کافر کو قبرستان کا چوکیدار بنانا کیساہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مسلمانوں کے قبرستان میں غیر مسلم کو چوکیداری اور صفائی کے لیے  ملازم رکھنا جائزہے،البتہ مسلمان ملازم کو ترجیح دینا زیادہ  بہتر ہے، کیونکہ غیرمسلم کی نظر میں مسلمانوں کے قبرستان کی عظمت اور احترام نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے: 

"عن عائشة رضي الله عنها:واستأجر النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر رجلا من بني الديل، ثم من بني عبد بن عدي، هاديا ‌خريتا - الخريت: الماهر بالهداية - قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل، وهو على دين كفار قريش، فأمناه فدفعا إليه راحلتيهما، ووعداه غار ثور بعد ثلاث ليال، فأتاهما براحلتيهما صبيحة ليال ثلاث، فارتحلا، وانطلق معهما عامر بن فهيرة، والدليل الديلي، فأخذبهم أسفل مكة، وهو طريق الساحل."

(كتاب الإجارة،باب: استئجار المشركين عند الضرورة أو إذا لم يوجد أهل الإسلام،790/2،ط:دارإبن كثير)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وإن استأجر المسلم ذميا، أو مستأمنا لخدمته كان جائزا."

(كتاب الإجارات،‌‌باب إجارة الرقيق في الخدمة وغيرها،56/16،ط:مطبعة السعادة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں