اگر مسلمانوں کے قبرستان میں چوکیداری اور صفائی کے لیے کوئی مسلمان تیار نہ ہو تو ایسی صورت ِحال میں کسی کافر کو قبرستان کا چوکیدار بنانا کیساہے؟
صورت ِ مسئولہ میں مسلمانوں کے قبرستان میں غیر مسلم کو چوکیداری اور صفائی کے لیے ملازم رکھنا جائزہے،البتہ مسلمان ملازم کو ترجیح دینا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ غیرمسلم کی نظر میں مسلمانوں کے قبرستان کی عظمت اور احترام نہیں ہوگا۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها:واستأجر النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر رجلا من بني الديل، ثم من بني عبد بن عدي، هاديا خريتا - الخريت: الماهر بالهداية - قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل، وهو على دين كفار قريش، فأمناه فدفعا إليه راحلتيهما، ووعداه غار ثور بعد ثلاث ليال، فأتاهما براحلتيهما صبيحة ليال ثلاث، فارتحلا، وانطلق معهما عامر بن فهيرة، والدليل الديلي، فأخذبهم أسفل مكة، وهو طريق الساحل."
(كتاب الإجارة،باب: استئجار المشركين عند الضرورة أو إذا لم يوجد أهل الإسلام،790/2،ط:دارإبن كثير)
مبسوطِ سرخسی میں ہے:
"وإن استأجر المسلم ذميا، أو مستأمنا لخدمته كان جائزا."
(كتاب الإجارات،باب إجارة الرقيق في الخدمة وغيرها،56/16،ط:مطبعة السعادة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144508102719
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن