بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمانوں کے لیے مندر کی افتتاحی تقریب میں شریک ہونا


سوال

ہمارے گاؤں میں ہندو مسلم دونوں رہتے ہیں اوران کے مابین کوئی مسائل نہیں ہیں، ہندؤوں نے گاؤں میں مندر بنائے ہیں  اور اس کی اوپننگ(افتتاح) کرنے والے ہیں، انہوں نے قریب کے سارے ہندوں دیہاتوں کو کھانے پر مدعو کیا ہے ،اب گاؤں میں رہنے کی حیثیت سے مسلمانوں کو بھی بلایاہے اور ان سے کہا  ہے کہ جس دن ہم کھانا کھلاتےہیں، اس دن آپ بھی سب مسلمان مل کر   الگ جگہ کھانا بناؤ،    اور کھانے کا سارا خرچ ہم آپ کو دیں گے، کیا اس طرح کھانا بناکر کھانا جائز ہے ؟اس نسبت پر ایک مولانا کا کہنا ہے کہ ہم اپنا کھانا اسی دن اپنے گھر پر بناکر سارے مسلمان کو کھلاسکتےہیں اور ان کا خرچ ہم مسلمان ہی اٹھائیں گےاور ہندو ہمیں جو خرچ دیں گے وہ کسی اور ضرورت مند کوپہنچا دیں گے، وہ خرچ ہم اپنے استعمال میں نہیں لےسکتے ،تاکہ ہندو مسلم میں یکتا باقی رہے، کیا اس طرح اس اوپننگ نسبت سےاپنا انفرادی کھانا پکانا جائز ہے؟

جواب

 مندر کے افتتاح پر خوشی منانا یا اس موقع پر ہندوؤں کی خوشی میں شریک ہونا جائز نہیں ہے، لہذا  اس مناسبت سے مسلمانوں کا کسی علاحدہ جگہ جمع ہوکر کھانا پینا بھی جائز نہیں ہے، خواہ ہندوؤں کی رقم سے ہو یا مسلمان از خود اس کا انتظام کریں، مسلمانوں کو چاہیے کہ نرمی اور حکمت سے معذرت کر لیں  ۔

قرآن کریم میں ہے:

(فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ ٱلذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّٰلِمِينَ)( الأنعام:68)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال تعالى: {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} يعني: بعدما تذكر نهي الله تعالى لا تقعد مع الظالمين. وذلك عموم في النهي عن مجالسة سائر الظالمين من أهل الشرك وأهل الملة لوقوع الاسم عليهم جميعا، وذلك إذا كان في ثقة من تغييره بيده أو بلسانه بعد قيام الحجة على الظالمين بقبح ما هم عليه، فغير جائز لأحد مجالستهم مع ترك النكير سواء كانوا مظهرين في تلك الحال للظلم والقبائح أوغير مظهرين له; لأن النهي عام عن مجالسة الظالمين; لأن في مجالستهم مختارا مع ترك النكير دلالة على الرضا بفعلهم ونظيره قوله تعالى:{لعن الذين كفروا من بني إسرائيل}  الآيات، وقد تقدم ذكر ما روي فيه، وقوله تعالى: {ولا تركنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار}"

(أحكام القرآن للجصاص  ج:3،ص:3،ط:دارالکتب العلمیۃ)

البحرالرائق میں ہے :

"قوله، ‌ولا ‌يحلفون ‌في ‌بيوت ‌عبادتهم) ؛ لأن القاضي لا يحضرها بل هو ممنوع عن ذلك كذا في الهداية، ولو قال المسلم لا يحضرها لكان أولى لما في التتارخانية يكره للمسلم الدخول في البيعة والكنيسة، وإنما يكره من حيث إنه مجمع الشياطين لا من حيث إنه ليس له حق الدخول والظاهر أنها تحريمية."

(کتاب الدعوی، ج:7، ص:214، ط: دار الکتب الإسلامی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: اگر کسی مسلمان  کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟

جواب:ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ میں شریک ہونا ہر گز جائز نہیں ہے، اس سے توبہ کرنا لازم ہے،کیونکہ وہ کبیرہ گناہ ہے ،حتی کہ بعض فقہاء نےاس کو کفر لکھا ہے۔اورجوکھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیں اس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا۔ اور جو مسلمان  ہولی وغیرہ میں ہندو کی موافقت کی وجہ سے پکائیں تو اس سے ہر گز نہ لینا چاہیے۔"

(كتاب الحظر والاباحة باب الاكل والشرب ج:18،ص: 33،34، ط:فاروقیہ)

فقظ  والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں