بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان مرد کا عیسائی عورت سے نکاح کا حکم اور اس کی میراث میں سے بیوہ کو حصہ نہیں ملے گا


سوال

میرے ایک جماعتی ڈاکٹر صاحب ہیں جو ہسپتال میں ڈیوٹی کرتے ہیں انھوں نے آج سے برسوں پہلے ایک اپنے ہسپتال کے اسٹاف میں سے مسلمان مرد کی اہل کتاب (عیسائی) عورت سے شادی کروائی کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس کی اولاد ہوئی اور ابھی کچھ عرصہ پہلے مسلمان مرد وفات پا گیا ہے جب کہ اس کی بیوی زندہ ہے اور جو اولاد میں دو بیٹے ہیں، وہ دین اسلام پر ہیں۔  یہ میرے جماعتی ڈاکٹر صاحب پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ میرا یہ شادی کروانا ٹھیک تھا یہ نہیں؟ اور اب ان کہ میراث کا کیا حکم ہے؟ جب کہ شوہر کی پینشن ہے اور بیوی ڈاکٹر ہے وہ اپنی نوکری کر رہی ہے اور اس جماعتی کا کہنا کہ اس نے جب شادی کروائی تھی تو اس نے فتویٰ لیا  تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عیسائی عورت اگر موجودہ انجیل پر ایمان رکھتی تھی اور حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی مانتی ہے تو مسلمان مرد کا اس سے نکاح کرنا اور جماعتی ڈاکٹر کا نکاح کرانا درست تھا، البتہ   اختلافِ دین و عقیدہ مانعِ ارث ہے، یعنی کافر اور مسلمان ایک دوسرے کے  وارث نہیں بن سکتے لہذا مذکورہ عیسائی بیوہ کو اس کے مسلمان شوہر کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها".

(کتاب النکاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:45، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"واختلاف الدين أيضا يمنع الإرث والمراد به الاختلاف بين الإسلام والكفر، وأما اختلاف ملل الكفار كالنصرانية واليهودية والمجوسية وعبدة الوثن فلا يمنع الإرث حتى يجري التوارث بين اليهودي والنصراني والمجوسي".

(کتاب الفرائض، الباب السادس فى ميراث اهل الكفر، ج:6، ص:454، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں