بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان لڑکے کا یہودی یا عیسائی لڑکی سے شادی کرنا کیسا ہے؟


سوال

کیا  مسلمان لڑکا یہودی یا عیسائی لڑکی کے ساتھ شادی کر سکتا ہے؟

جواب

یہودی یا عیسائی گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی  سے نکاح کرنے کی چند صورتیں ہیں:

1۔ اگر وہ مسلمان ہوجائے  تو اس سے نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے۔

2۔اگر وہ عیسائی یا یہودی  مذہب کی پیروکار رہے  تو اس سے نکاح کرنامکروہ ہے، کیوں کہ ان کے ساتھ بود و باش کی صورت میں اپنے یا اپنے بچوں کے دین اوران کی  اسلامی روایات کو بچانا مشکل ہے۔

3۔ اگر وہ صرف نام کی عیسائی یا یہودی ہو بلکہ درحقیقت  دہریہ ہو تو ان سے نکاح کرنا جائزنہیں ہے۔

نیز اہلِ کتاب   سے  نکاح سے متعلق دوباتیں سمجھنے کی ہیں:

1-   اہلِ کتاب سے  نکاح اس وقت جائزہے جب وہ حقیقتاً  آسمانی کتاب کے ماننے والے اور اس کے تابع دارہوں،دہریے نہ ہوں،  اگرتحقیق سے کسی عورت کااہل کتاب ہونا ثابت ہوجائے تو ا س سے اگرچہ نکاح جائزہے، تاہم چندمفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورِمبارک میں اس پرسخت ناراضی کااظہارفرمایاتھا۔

2- مسلمان مرد کو کتابیہ عورت کے  ساتھ  اس شرط کے ساتھ  نکاح کی اجازت ہے کہ وہ مسلمان مرد اسلام کی قوی اور روشن حجتوں اور مضبوط دلائل  کے ذریعہ کتابیہ عورت اور اس کے خاندان کے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرسکے،اگریہ اندیشہ ہوکہ کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد خود مسلمان مرد اپنے ایمان کو قربان کربیٹھے گا توپھرمسلمان مرد کو کتابیہ سے نکاح کی اجازت نہ ہوگی۔

(معارف االقرآن 2/447،مولانامحمدادریس کاندہلویؒ،ط:مکتبۃ المعارف شہداد پور)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

''ويجوز للمسلم نكاح الكتابية الحربية والذمية حرةً كانت أو أمةً، كذا في محيط السرخسي. والأولى أن لا يفعل.''

(کتاب النکاح، القسم السابع، ج:1،ص:281، ط:دار الفکر)

احکام القران میں ہے:

"عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: تَزَوَّجَ حُذَيْفَةُ بِيَهُودِيَّةٍ, فَكَتَبَ إلَيْهِ عُمَرُ أَنْ خَلِّ سَبِيلَهَا, فَكَتَبَ إلَيْهِ حُذَيْفَةُ: أَحَرَامٌ هِيَ؟ فَكَتَبَ إلَيْهِ عُمَرْ: لَا, وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ تُوَاقِعُوا الْمُومِسَاتِ مِنْهُنَّ; قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: يَعْنِي الْعَوَاهِرَ. فَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ مَعْنَى الْإِحْصَانِ عِنْدَهُ هَهُنَا كَانَ عَلَى الْعِفَّةِ."

(سورۃ المائدۃ، باب تزوج ا لکتابیات،ج:2،ص:408، ط:دار الکتب العلمیۃ)

ترجمہ:"حضرت شقیق بن سلمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:حضرت  حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی، حضرت عمر رضی اللہ نے انہیں خط  لکھا کہ اسے چھوڑ دو، تو حضرت حذیفہ نے انہیں  لکھا: کیا حرام ہے؟ توحضرت عمر نے انہیں لکھا: نہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم ان میں سے بعض طوائفوں کے ساتھ ہمبستری کرو گے۔ ابو عبید نے کہا : اس سے مراد طوائفیں ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کے لیے احصان کا معنی عفت تھا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں