بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان لڑکی کا ذکری سے نکاح


سوال

عرض یہ ہے کہ میری بیٹی کا نکاح 12 جون 2022 میں ہوا، اور 16 جولائی کو رخصتی ہوئی، اس کے بعد سے میری بیٹی کو قید کردیاہے، نہ کوئی نمبر ہے میری بیٹی کا اور نہ ہی ملاقات ہے، ہم کورٹ بھی گئے اور تھانے بھی گئے، سب جگہ ہم نے کہاکہ ہماری مدد کریں، ہمارے ساتھ فراڈ کرکے ذکری لوگوں نے ہماری بیٹی سے جھوٹا نکاح کرکے قید کردیا ہے، لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا اور نہ ہی کہیں مدد ہوئی۔

ہمارے پورےگھر پر بہت سخت جادو کیا تھاکہ ہوش ختم ہوگئے تھے، اتنی بری حالت میں بھی ہم نے محرم میں بھی روزہ رکھا، اللہ نے آسانی فرمائی اور علاج ہوگیا، بیٹی کے لیے 6 مہینے سے گھوم رہے ہیں۔

اب مسجد میں بات کی کہ طلاق کروادیں تو انہوں نے آپ سے رابطہ کرنے کو کہا، سوال یہ ہے کہ لڑکا ذکری ہے، مسلمان نہیں ہے، تو کیاہم طلاق لے سکتے ہیں؟

جواب

ذکری فرقہ اپنے باطل عقائد کی بنا پر  دینِ اسلام سے خارج ہے، اوراس کے ماننے والے مسلمان نہیں ہیں ؛ لہذامسلمان لڑکی کا ذکری مرد سے نکاح کرنا  جائز  نہیں ہے، اور اگر نکاح کر لیا ہو تو ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

لہذا لڑکی کے والدین اور رشتہ دار لڑکی کو لڑکے والوں سے بازیاب کرانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کر سکتے ہیں، اور دونوں کے درمیان علیحدگی کروا سکتے ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے :

‌"ومنها: ‌إسلام ‌الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا}  ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل:{أولئك يدعون إلى النار}؛ لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما."

(کتاب النکاح ، جلد:2، صفحہ:272، طبع:دارالکتب العلمیه)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي المحيط: تزوج ذمي مسلمة فرق بينهما لأنه وقع فاسدا. اهـ. فظاهره أنهما لا يحدان وأن النسب يثبت فيه والعدة إن دخل بحر.

قلت: لكن سيذكر الشارح في آخر فصل في ثبوت النسب عن مجمع الفتاوى: نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا تجب العدة لأنه نكاح باطل اهـ. وهذا صريح فيقدم على المفهوم فافهم، ومقتضاه الفرق بين الفاسد والباطل في النكاح، لكن في الفتح قبيل التكلم على نكاح المتعة. أنه لا فرق بينهما في النكاح، بخلاف البيع، نعم في البزازية حكاية قولين في أن نكاح المحارم باطل أو فاسد. والظاهر أن المراد بالباطل ما وجوده كعدمه، ولذا لا يثبت النسب ولا العدة في نكاح المحارم أيضا كما يعلم مما سيأتي في الحدود. وفسر القهستاني هنا الفاسد بالباطل، ومثله بنكاح المحارم وبإكراه من جهتها أو بغير شهود إلخ وتقييده الإكراه بكونه من جهتها قدمنا الكلام عليه أول النكاح قبيل قوله وشرط حضور شاهدين، وسيأتي في باب العدة أنه لا عدة في نكاح باطل."

(کتاب النکاح، جلد: 3، صفحہ:131، طبع:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں