بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان لڑکی کا نکاح غیر مسلم لڑکے سے ناجائز اور حرام ہے اور اس نکاح میں شرکت کرنا درست نہیں


سوال

میرے تین سوال ہیں،برائے مہربانی ان کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں بیان فرمادیجیے۔

1)کیا کسی مسلمان لڑکی کا نکاح یا شادی کسی غیر مسلمان لڑکے سے جائز ہے؟

2)لڑکی کو سمجھانے کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے،تو کیا اس شادی کی تقریب میں جانا چاہیے؟

3)کیا ایسی تقریب میں جانا میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کی تقلید ہے کہ جب کوئی آپ کو بلائے تو جائیے یا یہ اس دائرہ سے باہر کا بلاوا ہے؟

جواب

(1) صورتِ مسئولہ میں کسی مسلمان لڑکی کا نکاح/شادی کسی غیر مسلمان لڑکے سے ناجائز اور حرام ہے،شرعاً ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

(2) اگر مسلمان لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرے تواس شادی کی دعوت میں شرکت کرنا شرعاً درست نہیں۔

(3)اگر کوئی شخص کسی کو دعوت دےتواس کی دعوت میں شرکت کرنااس وقت جائزہے،جب اس دعوت میں منکرات یعنی خلافِ شرع امور کا ارتکاب نہ ہو،خلافِ شرع امور پر مشتمل دعوت میں شرکت کرنے سے  خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتناب فرمایا ہے اور دوسرو ں کو بھی ایسی دعوت میں شرکت نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

لہذامذکورہ بالادعوت میں شرکت کرنا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقہ نہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

 "فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ فَلا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِلَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ"(ممتحنہ:10)

"(ترجمہ)پس اگر ان کو (اس امتحان کی رو سے) مسلمان سمجھو تو ان کو کفار کی طرف مت واپس کرو (کیونکہ) نہ تو وہ عورتیں ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان عورتوں کے لیے حلال ہیں"(بیان القرآن)

علامہ قرطبی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"ای لم ‌يحل ‌الله مؤمنة لكافر"

(الجامع لأحکام القرآن، تفسيرسورة الممتحنة، ج:18، ص:63، ط:دار الكتب المصرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها ‌إسلام ‌الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} ، لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما"

(کتاب النکاح، ج:2، ص:271، ط:سعید)

مرقاة المفاتيح ميں ہے:

"وعن سفينة «أن رجلا ضاف علي بن أبي طالب فصنع له طعاما فقالت فاطمة لو دعونا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأكل معنا فدعوه فجاء فوضع يديه على عضادتي الباب فرأى القرام قد ضرب في ناحية البيت فرجع قالت فاطمة فتبعته فقلت: يا رسول الله ما ردك قال إنه ليس لي أو لنبي أن يدخل بيتا مزوقا"

قال القاری رحمه الله : قال الخطابي وتبعه ابن الملك : وفيه تصريح بأنه لا يجاب دعوة فيها منكر اهـ

(كتاب النكاح، باب الوليمة، ج:5، ص:2109، ط:دار الفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"لأنه لا يلزمه إجابة الدعوة إذا كان ‌هناك ‌منكر.وقال علي - رضي الله عنه - صنعت طعاما فدعوت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فجاء فرأى في البيت تصاوير فرجع رواه ابن ماجه، وعن ابن عمر أنه قال «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن مطعمين عن الجلوس على مائدة يشرب عليها الخمر، وأن يأكل وهو منبطح» رواه داؤد"

(کتاب الکراهية، ج:6، ص:13، ط:المطبعة الكبری الأمیریة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو دعي إلى دعوة فالواجب أن يجيبه إلى ذلك، وإنما يجب عليه أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية، ولا بدعة،لا يجيب دعوة الفاسق المعلن ليعلم أنه غير راض بفسقه"

(کتاب الکراهية، الباب الثانی عشرفی الھدایاوالضیافات، ج:5، ص:343، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں