بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اسماعیلی شیعہ لڑکےسے نکاح کرنا جائز ہے؟


سوال

1۔میری بہن ایک اسماعیلی شیعہ لڑکے کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے،حالاں کہ ہم سنی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، والد اور دادا اہلسنت والجماعت کے پیروکار تھے،کیا میری بہن کا اسماعیلی شیعہ لڑکے کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے؟

2۔میری والدہ بھی بہن کا ساتھ دے رہی ہیں اور چھوٹے بھائی کا بھی ذہن خراب ہو گیا یعنی میری والدہ اور بھائی شیعت کی طرف مائل ہو رہے ہیں،اس صورتِ حال میں میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیامیں اپنے گھر والوں سے الگ ہو سکتا ہوں؟ اور والدہ کا خرچہ بند کر سکتا ہوں؟

3۔والدہ کہتی ہیں کہ وہ جس سے چاہے شادی کرےاس کو اختیار ہے،چاہے ہندو سے کرے یا کسی سے بھی،والدہ کا اس طرح کہنا کیسا ہے؟

جواب

1۔اسماعیلی فرقہ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے  مسلمانوں سے الگ ایک مستقل مذہب ہے،اور کسی بھی مسلمان لڑکی کے لیے اسماعیلی لڑکے سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے،لہذا  سائل کی بہن  جو سنّی مسلمان ہے،  اس کے لیے کسی ایسے لڑکے( جو اسماعیلی شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والا ہے) سے نکاح کرنا ناجائز و حرام  ہے، اگر وہ  نکاح کر بھی لے  تب بھی یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا ۔

2۔سائل کی والدہ   اور اس کے بھائی کا اس ناجائز کام میں بہن کا ساتھ دینا قطعاً جائز  نہیں ہے،لہذا  انہیں  اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

 سائل  کی ذمہ داری ہے کہ اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کو شیعت کے گمراہ کن عقائد سے آگاہ کرے، اور  جس طریقہ سے ان کی اصلاح ممکن ہو   ان کو سمجھانے کی کوشش کرے، البتہ اگر وہ پھر بھی نہیں سمجھتے اور اس لڑکے سے رشتہ کرنے پر مصر ہیں،تو سائل کے لیے ان سے الگ ہونا جائز ہوگا۔

اگر والدہ محتاج ہیں تو پھر ضرورت کے مطابق خرچہ دینا واجب ہوگا،بند کرنا جائز نہیں ہوگا۔

3۔والدہ کا یہ کہنا کہ"وہ جس سے شادی کرے اس کو اختیار ہے ،چاہے ہندو سے کرے یا کسی سے بھی"یہ کہنا ہرگز جائز نہیں ہے،اور ان پر لازم ہے کہ   اس پر اللہ تعالی سے معافی مانگیں توبہ و استغفار کریں اور آئندہ اس طرح جملے زبان پر لانے سے اجتناب کریں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ  ۭ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۭ اُولٰئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ  وَاللّٰهُ يَدْعُوْا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِه ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِه لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ".(سورۃ البقرة، آیت: 221)

ترجمہ:

"اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی (کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر عورت سے گو وہ تم کو اچھی ہی معلوم ہو۔  اور عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان مرد غلام بہتر ہے کافر مرد سے گو وہ تم کو اچھا ہی معلوم ہو (کیوں کہ) یہ لوگ دوزخ ( میں جانے) کی تحریک دیتے ہیں ۔ اور الله تعالیٰ جنت اور مغفرت کی تحریک دیتے ہیں اپنے حکم سے اور اللہ تعالیٰ اس واسطے آدمیوں کو اپنے احکام بتلادیتے ہیں تاکہ وہ لوگ نصیحت پر عمل کریں ۔"

(بیان القرآن، ج:1، ص:126، ط:میر محمد کتب خانہ کراچی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌ومنها ‌إسلام ‌الرجل ‌إذا ‌كانت ‌المرأة ‌مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221]ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا} [النساء: 141] فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لا يجوز".

(كتاب النكاح، فصل إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة، ج:2، ص:271، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي مجمع الفتاوى: نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا تجب العدةلأنه نكاح باطل.

(قوله: لأنه نكاح باطل) أي فالوطء فيه زنا لا يثبت به النسب، بخلاف الفاسد فإنه وطء بشبهة فيثبت به النسب ولذا تكون بالفاسد فراشا لا بالباطل رحمتي، والله سبحانه أعلم".

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في ثبوت النسب، ج:3، ص:555، ط:ایچ ایم سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال:) رضي الله عنه ويجبر الرجل الموسر على نفقة أبيه وأمه إذا كانا محتاجين لقوله تعالى {فلا تقل لهما أف} [الإسراء: 23] نهى عن التأفيف لمعنى الأذى، ومعنى الأذى في منع النفقة عند حاجتهما أكثر".

کتاب النکاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ج:5، ص:222، ط:مطبعة السعادة - مصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌أحدها ‌إعساره ‌فلا ‌تجب ‌لموسر ‌على ‌غيره ‌نفقة في قرابة الولاد وغيرها من الرحم المحرم؛لأن وجوبها معلول بحاجة المنفق عليه فلا تجب لغير المحتاج ولأنه إذا كان غنيا لا يكون هو بإيجاب النفقة له على غيره أولى من الإيجاب لغيره عليه فيقع التعارض فيمتنع الوجوب بل إذا كان مستغنى بماله كان إيجاب النفقة في ماله أولى من إيجابها في مال غيره بخلاف نفقة الزوجات أنها تجب للزوجة الموسرة".

(كتاب النفقة، فصل في شرائط وجوب هذه النفقة، ج:4، ص:34، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"والهجر فوق ثلاث دائر مع القصد، فإن قصد هجر المسلم 146 - حرم وإلا لا.

قوله: فإن قصد هجر المسلم يعني من غير موجب شرعي للهجر.

(146) قوله: حرم وإلا لا.

أي بأن كان الهجر لموجب شرعي لا يحرم.

هذا هو المراد.".

(القاعدة الثانية الأمور بمقاصدها، ج:1، ص:98، ط:دار الكتب العلمية)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"أي: هذا باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى، وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام،فمن كان جرمه كثيرا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه، وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه، كما فعلت عائشة في مغاضبتها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الآداب، باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، ج:22، ص:225، ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن علي بن الحسين رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه". رواه مالك، وأحمد

"(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌حسن ‌إسلام المرء) أي: من جملة محاسن إسلام الشخص وكمال إيمانه (تركه ما لا يعنيه) ، أي: ما لا يهمه ولا يليق به قولا وفعلا ونظرا وفكرا،۔۔۔وذلك يشمل الأفعال الزائدة والأقوال الفاضلة، فينبغي للمرء أن يشتغل بالأمور التي يكون بها صلاحه في نفسه في أمر زاده بإصلاح طرفي معاشه ومعاده، وبالسعي في الكمالات العلمية والفضائل العملية التي هي وسيلة إلى نيل السعادات الأبدية، والفوز بالنعم السرمدية، ولعل الحديث مقتبس من قوله تعالى: {والذين هم عن اللغو معرضون}".

(كتاب الآداب، ‌‌باب حفظ اللسان والغيبة والشتم، ج:7، ص:3025، حدیث:4812، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں