بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان عورت کا ہندو لڑکے سے نکاح


سوال

میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی ،بلوغت کے بعد تقریباً 20 سال کی عمر میں میں نے اپنی مرضی بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے اسلام قبول کیا ہے ،اب میں چاہتی ہوں کہ میری شادی کسی بھی مسلم نوجوان سے ہوجائے لیکن میرے والد  (جو ابھی غیر مسلم ہے )کا اصرار ہے  کہ چونکہ میں پیدائشی ہندو ہوں اور بعد میں مسلمان ہوئی ہوں ؛اس لیے میری شادی کسی ہندو لڑکے سے بھی ہوسکتی ہے ،اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے ؛لہذا برائے کرم شریعت کی روشنی میں آپ فتوی صادر فرمائیں کہ :

آیا میں کسی ہندو لڑکے سے شادی کرسکتی ہوں ؟اس طرح شادی کی کیا حیثیت ہوگی ؟اس قسم کی شادی کرنے سے فریقین میں کوئی گناہ گار ہوگا یا نہیں ؟

جواب

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے لیے رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے سلسلہ میں جو  احکامات نازل فرمائے ہیں، ان میں  رشتہ کرنے کی شرائط میں سے پہلی شرط اسلام بیان فرمائی ہے، چناں چہ مسلمان مردوں پر کافر خواتین کو اور مسلمان عورتوں پر کافر مردوں کو حرام قرار دیاہے، ان کے درمیان باہمی نکاح کو بھی حرام قرار کردیا ہے۔

ارشاد ربانی ہے

"﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ ﴾."(الممتحنة: ١٠)

ترجمہ: " نہ وہ (مسلمان عورتیں) ان (کافر مردوں) کے لیے حلال ہیں، اور نہ ہی وہ (کافر) ان (مسلمان عورتوں) کے لیے حلال ہیں"۔

لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ سائلہ مسلما ن ہوچکی ہے ،لہذا سائلہ کا نکاح کسی ہندو لڑکے یا کسی بھی غیر مسلم شخص سے شرعا ً جائز نہیں اور اگر نکاح کربھی لیا تو ایسا نکاح شرعاً درست نہیں ہوگا اور اس کی وجہ سے سائلہ گناہ گار ہوں گی ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

‌"ومنها: ‌إسلام ‌الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا}  ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل:{أولئك يدعون إلى النار}؛ لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى:{ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا}فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لا يجوز."

(کتاب النکاح ،فصل التأبید،ج:۲،ص:۲۷۲،دارالکتب العلمیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں