بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان اہل کتاب کے علاوہ کن کافرہ عورت سے نکاح کرسکتا ہے؟


سوال

 مسلمان مرد کن کافرہ (اہل کتاب کے علاوہ)  عورتوں سے شادی کرسکتا ہے، اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے، اگر وہ دو بالغ مردوں کے سامنے مہر کی رقم اور ایجاب و قبول کرلے تو کیا اس سے نکاح ہوجائے گا، جب کہ بہت سے کافر اپنے مذہب سے ناواقف اور نابلد ہوتے ہیں، اور ان کو مذہب کا کچھ علم بھی نہ ہو۔

جواب

صورت مسئولہ میں مسلمان مرد کا اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) کے علاوہ کسی بھی کافرہ (مشرکہ، دہریہ، ہندو ، مجوسی اور بدھسٹ اور دیگر) عورت سے نکاح کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اور اس کے برعکس یعنی مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم مرد سے کسی صورت نکاح نہیں ہوسکتا، البتہ مسلمان مرد اہل کتاب یعنی آسمانی مذاہب کے پیروکار عورت سے شادی کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ عورت اپنےمذہب کو مکمل طور پر ماننے والی ہو اور صحیح معنوں میں تابع دار بھی ہو، اگر اہل کتاب عورت صرف نام کی عیسائی /  یہودی ہے، تو اس صورت میں وہ لادین شمار ہوگی اور اس سے نکاح جائز نہیں ہوگا، کیونکہ شریعت نے آسمانی مذاہب کے مابین نکاح کی اجازت دی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما، فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: "ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن"، ويجوز أن ينكح الكتابية؛ لقوله عز وجل: "والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم".والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح إلا أنه جوز ‌نكاح ‌الكتابية؛ لرجاء إسلامها؛ لأنها آمنت بكتب الأنبياء والرسل في الجملة."

(كتاب النكاح، فصل أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما: 2/ 270، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يطأ المشركة والمجوسية بملك اليمين ويجوز للمسلم نكاح الكتابية الحربية والذمية حرة كانت أو أمة، كذا في محيط السرخسي. والأولى أن لا يفعل ولا تؤكل ذبيحتهم إلا لضرورة، كذا في فتح القدير."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السابع المحرمات بالشرك: 1/ 281، ط:  ماجدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں