بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جامع مسجد قریب ہوتے ہوئے مصلی میں مستقل نماز باجماعت کا اہتمام کرنا


سوال

ایک کھانے کی جگہ ہے، وہاں پر ایک مصلیٰ بنا ہوا ہے، ہوٹل میں کام کرنے والوں کے لیے ایک آدمی کو امام بھی رکھا ہوا ہے ، وہاں سے جامع مسجد کا راستہ تین چار منٹ کا ہوگا ، وہاں جماعت کرانا کیسا ہے ؟ اگر وہاں جماعت نہ ہوتو وہاں کے لوگ مسجد نماز کے لیے نہیں جاتے سوائے ایک دو کے ، مجموعی تعداد وہاں دس پندرہ کی ہوجاتی ہے ، ایسی صورت میں وہاں نماز با جماعت پڑھنا اور پڑھانا کیسا ہے ؟ جائز ہے یا نہیں ؟ نیز امام کا مسجد سے دور رہنا کہ وہ اس وجہ سے مسجد شرعی میں نہیں جاپاتا کیسا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مصلی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے جماعت کا ثواب تو مل جائے گا، لیکن مسجد کا ثواب نہیں ملے گا جوکہ جماعت کے ثواب کے علاوہ ہے، لہذا جامع مسجد قریب ہوتے ہوئے اس مصلی میں مستقل نماز پڑھنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے ،کیوں کہ اس صورت میں مستقل مسجد کی جماعت کو چھوڑنا لازم آئے گا،تاہم اگر کوئی انتظامی مجبوری ہو تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے، جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے  کی اپنی فضیلت اور شان ہے ،جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی فضیلت وثواب محلہ کی مسجد (مصلی)میں یا گھر میں باجماعت نماز پڑھنے سے پانچ سو گنازیادہ ہے،جیساکہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ارشاد ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة ‌الرجل ‌في ‌بيته ‌بصلاة ‌وصلاته ‌في ‌مسجد ‌القبائل ‌بخمس ‌وعشرين صلاة وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخسمائة صلاة وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة وصلاته في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الفصل الثالث،1/ 234، ط:المکتب الإسلامی)

ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی  نماز کے برابر اور محلہ کی مسجد میں پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے ( جامع مسجدمیں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد ِ اقصیٰ ( یعنی بیت المقدس میں ) اور میری مسجد ( مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجدِ حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔‘‘

(مظاہر حق جدید،1/ 508،ط:دارالاشاعت کراچی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن صلى ‌بجماعة ‌في ‌البيت اختلف فيه المشايخ والصحيح أن للجماعة في البيت فضيلة وللجماعة في المسجد فضيلة أخرى فإذا صلى في البيت بجماعة فقد حاز فضيلة أدائها بالجماعة وترك الفضيلة الأخرى، هكذا قاله القاضي الإمام أبو علي النسفي، والصحيح أن أداءها بالجماعة في المسجد أفضل وكذلك في المكتوبات."

(كتاب الصلاة،الباب التاسع في النوافل،فصل في التراويح:1/ 116، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية. اهـ"

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 554، ط: سعيد)

رد المحتار مع الدر المختار میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 552، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: لكن في الخانية وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يذهب إليه ويؤذن فيه ويصلي وإن كان واحدا لأن لمسجد منزله حقا عليه، فيؤدي حقه مؤذن مسجد لا يحضر مسجده أحد. قالوا: هو يؤذن ويقيم ويصلي وحده، وذاك أحب من أن يصلي في مسجد آخر."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 555، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں