بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصلی میں جماعت ثانیہ کرانے کے لیے انتظار کا حکم


سوال

ہماری مارکیٹ میں ایک مصلی (جائے نماز) ہے، جس میں صرف ظہر ،عصر، مغرب اور عشاء کی جماعت ہوتی ہیں، گزشتہ تقریباً دوسالوں سے نمازیوں کی سہولت کے پیش نظرظہر اور عصر کی دو جماعتیں ہورہی ہیں، پہلی جماعت امام خود پڑھاتے ہیں ، اور دوسری جماعت مؤذن پڑھاتے ہیں۔اب ہم (انتظامیہ ) مغرب کی دوسری جماعت شروع کروانا چارہے ہیں کیوں کہ مجمع زیادہ ہوتاہے اور جگہ کم پڑجاتی ہے،  حتی کہ کچھ لوگ جماعت کے  ختم ہونے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں  اور مزید لوگ جماعت کے بعد فردا فردا نماز پڑھنے کے لیے آرہے ہوتے ہیں۔ تو ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع ملے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اذان کے فورا ً بعد جماعت اولی کا دورانیہ  نمازیوں کے سنتوں سمیت  تقریبا 10 سے 12 منٹ  کا ہوگا تو لا محالہ اس   دوران مؤذن انتظار کریں گے، آیا مؤذن کا یہ انتظار کرنا شریعت کی رو سے ٹھیک   رہے گایا نہیں؟ جبکہ دوسری طرف عذر قوی ہے(یعنی جماعت ثانیہ کاقیام)۔

جواب

واضح رہے کہ مسجد  شرعی میں جماعت ثانیہ کرنا مکروہ ہے،لیکن صورت مسئولہ  میں سائل کے قول کے مطابق اگر مذکورہ جگہ صرف مصلی ہی ہو، باقاعدہ طور پر مسجد کے نام پر وقف نہ ہو، بلکہ کچھ لوگ اس میں اکھٹے ہوکر نماز پڑھ لیتے ہوں، تو ایسی صورت میں اس میں  دوسری جماعت  کرانا  درست ہے۔ تاہم قرب  وجوار  میں اگر مسجد ہو تو اس میں جماعت کے ساتھ  نماز پڑھ لینی چاہیے، اس لیےکہ  مسجد میں نماز پڑھنے کاثواب  زیادہ ہے۔

اور اگر مذکورہ جگہ باقاعدہ مسجد ہو تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ایسی مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو، ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ محلے والوں/ اہلِ مسجد کے جماعت کے ساتھ  نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے۔

نیزمغرب کی نماز میں تعجیل یعنی جلدی کرنا  مستحب ہے، اس میں تاخیرکرنا مناسب نہیں ہے۔ لہذا دوسری جماعت کرانے کے لیے مستقل بنیاد پر 10 سے 12 منٹ کی تاخیر مکروہ تنزیہی کے زمرے میں آئے گا، جوکہ  مناسب نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں  متعلقہ انتظامیہ کو چاہیے کہ  نماز کی جگہ میں توسیع کردے یا  کم از کم مغرب کی نماز کے لئے  اس  مصلی سے متصل بھی نمازیوں کے لئے صف بندی کردی جائے تاکہ مغرب کی نماز بلاکراہت پڑھی جاسکے، اور  اگر یہ ممکن نہ ہو تو  پھر کوشش کرے کہ  قرب وجوار میں جو مسجدیں ہوں اس میں باجماعت  نماز پڑھ  لیاکریں۔

'إعلام الساجد بأحکام المساجد' میں ہے:

"ثم إن العرف خصص المسجد بالمكان المهيإ للصلوات الخمس حتى يخرج المصلى المجتمع فيه للأعياد ونحوها فلا يعطى حكمها،وكذلك الربط والمدارس فإنها هيئت لغير ذلك."

(مقدمة المؤلف، الفاتحة في مدلول‌‌ المسجد لغة وشرعا وتوابع ذلك، ص: 28، ط: المجلس الأعلى للشئون الإسلامية لجنة إحياء التراث الإسلامي)

'الموسوعۃ الفقہیۃ' میں ہے:

"المصلى لغة: موضع الصلاة أو الدعاء ، قال تعالى:  "وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى" أي موضعا للدعاء.واصطلاحا: الفضاء والصحراء، وهو المجتمع فيه للأعياد ونحوها."

(ج: 38، ص: 29، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

 الدر مع الرد میں ہے:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

وفي الرد: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر."

(شامي، کتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب في تكرار الجماعةفي المسجد،  ج: 1، ص: 552، ط: سعید)

الدر مع الرد میں ہے:

"(والمستحب تعجيل ظهر شتاء) ( و) تعجيل (مغرب مطلقا) وتأخيره قدر ركعتين يكره تنزيها.

وفي الرد: وأن الزائد على القليل إلى اشتباك النجوم مكروه تنزيها، وما بعده تحريما إلا بعذر."

(شامي، كتاب الصلاة، ج: 1، ص: 369، ط: سعید)

'البحر الرائق' میں ہے:

"(قوله: والمغرب) أي وندب تعجيلها... ويكره تأخيرها إلى اشتباك النجوم... وتأخيرها لصلاة ركعتين مكروهة."

(كتاب الصلاة، ج: 1، ص: 248، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"فلو انتظر قبل الصلاة ففي أذان البزازية لو انتظر الإقامة ليدرك الناس الجماعة يجوز لواحد بعد الاجتماع لا إذا كان داعرا شريرا اهـ (قوله أي إن عرفه) عزاه في شرح المنية إلى أكثر العلماء أي لأن انتظاره حينئذ يكون للتودد إليه لا للتقرب والإعانة على الخير... فالحاصل أن التأخير القليل لإعانة أهل الخير غير مكروه."

(شامي، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلي إنتهائها،مطلب في إطالة الركوع للجائي، ج: 1، ص: 495، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں