بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصلی میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

بلڈنگوں اور اپارٹمنٹس میں وقف کی گئی نماز کی جگہ پر  جسے بالخصوص مصلی کہا جاتا ہے،کیا اہتمام کے ساتھ پانچ وقت اذان اور اقامت کے ساتھ با جماعت نماز  ادا کی جا سکتی ہے؟

یہ ایک بڑا اپارٹمنٹ ہے جس میں ایک سو پچاس کے قریب فلیٹس ہیں اور نمازیوں کی گنجائش تقریباً ایک سو پچاس افراد کی ہے۔

جواب

اپارٹمنٹ  اور بلڈنگوں میں جو جگہ نماز کے لیے مصلی کے نام پر وقف کی گئی ہو،وہاں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا جائز ہے اور وہاں  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے جماعت کی جو فضیلت وارد ہوئی ہے، وہ بھی حاصل ہوجائے گی، لیکن وہ جگہ  شرعی مسجد کے حکم میں نہیں ہوتی، لہٰذا وہاں نماز پڑھنے سے شرعی مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی جو فضیلت وارد ہوئی ہے، وہ حاصل نہیں ہوگی اور نہ اس جگہ اعتکاف کرنا درست ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"قال: ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل باب المسجد إلى الطريق، وعزله عن ملكه فله أن يبيعه، وإن مات يورث عنه؛ لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به، ولو كان السرداب لمصالح المسجد جاز كما في مسجد بيت المقدس. وروى الحسن عنه أنه قال: إذا جعل السفل مسجدا وعلى ظهره مسكن فهو مسجد؛ لأن المسجد مما يتأبد، وذلك يتحقق في السفل دون العلو.

(قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب) وهو بيت يتخذ تحت الأرض لتبريد الماء وغيره (أو فوقه بيت) ليس للمسجد واحد منهما فليس بمسجد (وله بيعه ويورث عنه إذا مات) ، ولو عزل بابه إلى الطريق (لبقاء حق العبد متعلقا به) والمسجد خالص لله سبحانه ليس لأحد فيه حق قال الله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: ١٨] مع العلم بأن كل شيء له فكان فائدة هذه الإضافة اختصاصه به، وهو بانقطاع حق كل من سواه عنه وهو منتف فيما ذكر. أما إذا كان السفل مسجدا فإن لصاحب العلو حقا في السفل حتى يمنع صاحبه أن ينقب فيه كوة أو يتد فيه وتدا على قول أبي حنيفة، وباتفاقهم لا يحدث فيه بناء ولا ما يوهن البناء إلا بإذن صاحب العلو، وأما إذا كان العلو مسجدا فلأن أرض العلو ملك لصاحب السفل، بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لصاحب المسجد، فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب."

(کتاب الوقف، ج:6، ص:233، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں