بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مصلی کےمنتظمن اگرکسی کوسربراہ بنادیں اس کاحکم


سوال

ایک پلازہ کے اوپر مسجد(مصلی) بنائی گئی اور ایک جید عالم دین کو اس کا امام و خطیب مقرر کیا گیا اور مسجد کے تمام اختیارات ان کے حوالے کے گئے، انہوں نے مسجد کے نظم کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے کچھ افراد (تاجروں) کی کمیٹی بنائی اپنی سربراہی میں ،بعد میں اس پلازہ کو ان کی سربراہی میں خریدا گیا اور امام صاحب کو متولی بنایا گیا اور تاحال وہ سربراہ ہیں ، کمیٹی کے تمام ارکان اس کو سربراہ اور امام کی تقرری و تنزلی کا اختیار سپرد کرچکے ہیں، اب ایک انہی کے مقرر کردہ امام ان کو متولی نہیں مان رہا اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ متولی کے نام مسجد کی زمین کے کاغذات نہیں ہیں ، اور دوسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مسجد کے متولی ہونے کے لئے مسجد کے آس پاس اس کی زمینی جائیداد ہونا شرعا ضروری ہے جوکہ نہیں ہے۔

اب دریافت طلب یہ کہ:

1:کیا متولی کے لئے دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے؟

2:جب مذکورہ امام اس کو متولی نہیں مان رہا ،تو اسکی تقرری کی حیثیت کیا ہوگی ؟

3:اور مذکورہ امام کی امامت اور اس پر اجرت کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں جب پلازہ کےبانی (جنہوں نےمذکورہ مصلی بنایا)نےمذکورہ عالمِ دین کوخطیب مقررکرکےاس کےنظم ونسق اورتولیت سپردکرچکےاورپھرپلازہ کے نئےمالکان نےبھی یہ اختیاراس عالمِ دین کےحق میں بحال رکھاہےتوپھراس متولی کی طرف سےمقررکردہ امام کومتولی کی تولیت سےانکارکرنااوریہ کہنا کہ’’ متولی کے نام مسجد کی زمین کے کاغذات نہیں ہیں اور مسجد کے متولی ہونے کے لئے مسجد کے آس پاس اس کی زمینی جائیداد ہونا شرعا ضروری ہے ‘‘درست نہیں ہے، بالخصوص جب  اس پلازہ کےمنتظم حضرات نےاس عالمِ دین کوسربراہ تسلیم کرکےمصلی سےمتعلق تمام اختیارات سپردکریےہیں،تواب یہ عالمِ دین ہی اس مصلی کے سربراہ ہیں۔

2:صورتِ مسئولہ میں چوں کہ پلازہ کےمنتظمین نےمذکورہ عالمِ دین کوامام رکھنےاورمعزول کرنےکےاختیاردیےہیں،اب جب تک مذکورہ عالمِ دین اس امام کورکھنا چاہے،تودرست ہے۔

3:جب تک امام صاحب کو معزول نہیں کیا گیا اس وقت تک اجرت لینے کے مستحق ہیں ۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الصالح للنظر من لم يسأل ‌الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه ويستوي فيه الذكر والأنثى وكذا الأعمى والبصير وكذا المحدود في قذف إذا تاب، ويشترط في الصحة بلوغه وعقله كذا في البحر الرائق وإن جعل ولايته إلى من يخلف من ولده ولى القاضي أمر ‌الوقف رجلا يخلف ولده ويكون موضعا للولاية فتكون ‌الولاية إليه وهذا استحسان وكذلك إذا أوصى إلى صبي في وقفه فهو باطل في القياس ولكن استحسن أن تكون ‌الولاية إليه إذا كبر وإذا جعل إلى غائب نصب القاضي رجلا حتى إذا حضر الغائب رد عليه كذا في الحاوي ولا تشترط الحرية والإسلام للصحة لما في الإسعاف ولو كان عبدا يجوز قياسا واستحسانا والذمي في الحكم كالعبد فلو أخرجهما القاضي ثم أعتق العبد أو أسلم الذمي لا تعود ‌الولاية إليهما كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوقف، الباب الخامس في ولاية ‌الوقف وتصرف القيم في الأوقاف، ج:2، ص:408، ط:دار الفكر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"ولو جعل الواقف ولاية الوقف لرجل، كانت الولاية له كما شرط الواقف، ولو أراد الواقف إخراجه كان له ذلك، ولو شرط الواقف أن ليس له إخراج القيم فهذا الشرط باطل؛ لأنه مخالف لحكم الشرع؛ لأن القوامة وكالة والوكالة ليست بلازمة، ولو جعل إليه الولاية في حال حياته وبعد وفاته كان جائزاً فكان وكيلاً في حال حياته وصياً بعد الموت، ولو قال: وليتك هذا الوقف فإنما له الولاية حال حياته لا بعد وفاته."

(كتاب الوقف، الفصل السادس: في الولاية في الوقف، ج:6، ص:134، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602100054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں