بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کے لئے جائے اقامت میں اتمام یا قصر کرنے کا حکم


سوال

بندہ میر پور آزاد کشمیر کا رہائشی ہے اور اسلام آباد میں ملازمت کرتا ہے، اسلام آباد میرپور آزاد کشمیر سے مدت مسافت پر واقع ہے، پھر بندہ اسلام آباد شہر میں نہیں ہے، بلکہ اسلام آباد سے مری کی طرف تقریبًا تیس کلو میٹر مزید سفر ہے، کل ملا کر گھر سے منزل مقصود تک تقریبًا ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ بن جاتا ہے۔ بندہ کا معمول یہ ہے کہ ہر پندرہ دن میں چار دن چھٹی کرنا ہوتی ہے، یعنی جائے ملازمت میں بندہ کا کوئی بھی قیام پندرہ دن یا اس سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ ایسی صورتِ حال میں نماز کے قصر یا اتمام کے حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا بندہ اپنی جائے ملازمت جوکہ وطنِ اقامت بھی ہے میں قصر کرے گا یا اتمام؟ یہ بھی واضح رہے کہ جائے ملازمت میں بندہ کی فیملی رہائش نہیں ہے اور ملازمت بھی کوئی ایسی نہیں ہے کہ مستقل ہو یا کئی سال تک جاری رہنے کی یقین دہانی ہو، ایسا کوئی معاہدہ ادارے سے نہیں ہے، بلکہ ادارہ جب چاہے ملازمت سے نکال سکتا ہے؟ ایسی صورتِ حال میں بندہ نماز پوری پڑھے یا مسافر والی؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر  جائے ملازمت میں آپ نے ابھی تک پندرہ دن کا قیام نہیں کیا ہے تو آپ کو وہاں پر قصر کرنا ہوگا، البتہ اگر ایک مرتبہ بھی آپ  وہاں (جائے ملازمت میں) پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت سے ٹھہرے، اور وہاں آپ کی غیر موجودگی میں آپ کا کوئی سامان وغیرہ پیچھے رہتاہے تو وہاں پوری نماز پڑھیں گے، اگرچہ بعد میں پندرہ دن سے کم قیام کرنا پڑے، جب تک کہ اس جگہ سے ملازمت ختم نہ ہوجائے یا آپ اپنے سامان سمیت منتقل نہ ہوجائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو دخل بلدةً ولم ينوها) أي مدة الإقامة (بل ترقب السفر) غدًا أو بعده (ولو بقي) على ذلك (سنين) إلا أن يعلم تأخر القافلة نصف شهر، كما مر.

(قوله: أو دخل بلدة) أي لقضاء حاجة أو انتظار رفقة.
"(قوله: ولم ينوها) وكذا إذا نواها وهو مترقب للسفر كما في البحر لأن حالته تنافي عزيمته".

(كتاب الصلوة، باب صلوة المسافر، ج:2، ص:126، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205201325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں