اگرایک مسافر ایک کام سے سفر کے لیے روانہ ہوجائے اور وقت معلوم نہ ہو کہ کام کب ہوگا اور کام ہوجانے میں 80یا 90 دن گزر جائیں تو مسافر کو نماز سفرانہ ادا کرنی ہوگی یا مکمل پڑھنی ہوگی؟
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص سفر کی نیت سے مسافتِ شرعی طے کرکے کسی شہر پر جائے اور وہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا قصد نہ ہو بلکہ آج کل میں کبھی بھی واپس روانہ ہونے کا ارادہ ہو اور وہ شہر اس کا وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں جب تک وہ شخص اس شہر میں رہے گا تو مسافر ہی رہے گا اگرچہ کئی سال وہاں گزار لے۔
لہذا مذکورہ مسافر نے اگر مسافت شرعی کے بقدر سفر طے کیا ہو اور وہاں پندرہ دن کا قصد کیے بغیر 80 یا 90 دن گزار دیے ہوں تو ایسی صورت میں نماز وں میں قصر کرے گا نہ کہ اتمام، البتہ مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کی اتباع میں پوری نماز ادا کرے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(أو دخل بلدة ولم ينوها) أي مدة الإقامة (بل ترقب السفر) غدا أو بعده (ولو بقي) على ذلك (سنين) إلا أن يعلم تأخر القافلة نصف شهر كما مر.
(قوله: أو دخل بلدة) أي لقضاء حاجة أو انتظار رفقة.
(قوله: ولم ينوها) وكذا إذا نواها وهو مترقب للسفر كما في البحر لأن حالته تنافي عزيمته."
(باب صلوة المسافر، ج:2، ص:126، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100122
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن