بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کی نماز کے احکام


سوال

 سفر کی نماز کی ادائیگی کیسے کی جائے؟ مطلب نیت کیا کی جائے؟ کتنی رکعت ادا کی جائیں؟ سنتِ مؤکدہ،سنت غیر مؤکدہ اور نوافل کا کیا حکم ہوگا؟ اور نمازِ باجماعت کی صورت میں پچھلے دو مسائل کا کیا حکم ہوگا اور انفرادی نماز کا کیا حکم ہوگا ؟ اور اگر نماز مکمل ادا کرنا منع ہے تو مکمل نماز ادا کرے تو کیا حکم ہوگا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سفر کی نماز کی نیت کرنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو اقامت کی نماز کا ہے،شرعی مسافر(جو اپنے شہر سے سوا ستتر کلومیٹر کی مسافت پر کسی مقام پر پندرہ دن سے کم ٹھہر نے کی نیت سے شہر کی آبادی سے تجاوز کرچکا ہو)پر چار رکعت والی نماز کو دو رکعت پڑھنا لازم ہے،بشرطیکہ کسی مقیم امام کی اقتداء نہ کررہا ہو،مقیم امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کی صورت میں پوری نماز پڑھنا لازم ہے۔

اگر مسافر کسی جگہ ٹھرا ہوا ہے اور کسی قسم کی جلدی نہیں ہے،تو اسے سنت مؤکدہ پڑھ لینی چاہیے،سنت غیر مؤکد اور نوافل میں گنجائش ہے،اگر پڑھ لے تو افضل ہے اور اگر چھوڑ دے تو کوئی حرج نہیں۔

اور اگر مسافر جلدی میں ہو ،سفر جاری ہو ،سنتیں پڑھنے کی صورت اپنے آپ کے یا ساتھیوں کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو سنت مؤکدہ بھی چھوڑ سکتا ہے ،البتہ فجر کی دو سنتیں کسی حال میں نہیں چھوڑنی چاہیےکیوں کہ ان کی تاکید زیادہ ہے۔

جماعت کی نماز اگر کوئی مقیم امام پڑھائے تو مسافر مقتدی کو بھی فرائض مکمل پڑھنے ہوں گےاور اگر کوئی مسافر ہی امام ہو تو اس کے پیچھے مسافر مقتدی چار رکعت والی فرض نماز دو ہی رکعت پڑھے گا،باقی جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں بھی سنت مؤکدۃ،سنت غیر مؤکدہ اور نوافل کا وہی حکم ہے جو مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔

اگر مسافر چار رکعت والی فرض نماز انفرادی طور پریا مسافر امام کی اقتداء میں چار ہی رکعت پڑھے تو یہ عمل اس کے لیے جائز نہیں ہے،اگر جان بوچھ کر چار رکعت پڑھے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی،اور اگر بھول کر چار پڑھ لیں توایسی صورت میں اگر وہ پہلی دو رکعت کے بعد قعدہ میں التحیات کی بقدر بیٹھ گیا تو پہلی دو رکعتیں اس کے لیے فرض ہوں گی اور بقیہ نفل شمار ہوں گی ،چونکہ اس پر دو رکعت فرض کے بعد سلام پھیرنا واجب تھا اس لیے تاخیر سلام کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوگا،اگر سجدہ سہو کرنا بھول گیا تو نماز وقت کے اندر دہرانا واجب ہوگی ،وقت گذرنے کے بعد دہرا لے تو مستحب ہے۔

اور اگر دوسری رکعت میں التحیات کے بقدر قعدہ میں نہیں بیٹھا تو اس کی نماز نہیں ہوگی ،اس لیے کہ مسافر کے حق میں دوسری رکعت کا قعدہ فرض ہے ،اور فرض کے چھوڑنے سے نماز ادا نہیں ہوتی،تاہم اس کی یہ چاروں رکعتیں نفل ہوجائیں گی بشرطیکہ اس نے آخر میں سجدہ سہو کرلیا ہو۔

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته)...(قاصدا)...(مسيرة ثلاثة أيام ولياليها)...(صلى الفرض الرباعي ركعتين)."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ المسافر،ج:2،ص:123،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه و) لكنه (أساء) لو عامدا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لا يحل كما حرره القهستاني بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار (وما زاد نفل) كمصلي الفجر أربعا (وإن لم يقعد بطل فرضه) وصار الكل نفلا لترك القعدة."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ المسافر،ج:2،ص:128،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها هو المختار لأنه ترك لعذر تجنيس، قيل إلا سنة الفجر."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ المسافر،ج:2،ص:131،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں