بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کے لیے ضلع کی حدود میں داخل ہونے کے بعد اپنے شہر یا قصبے کی آبادی سے باہر قصر کرنے کا حکم


سوال

ایک آدمی سفر میں ہو اور وہ اپنے ضلع میں پہنچ جائے،گھرجانے کےلیے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں ،اور اس نے گھر ایک دودن بعدجاناہو تو اب یہ آدمی اپنے ضلع میں پہنچ کر نماز کون سی پڑھے گا؟

جواب

آپ کا سوال واضح نہیں ہے، اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ مسافر شخص واپسی پر اپنے ضلع میں داخل ہوچکا ہو  لیکن اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی میں داخل نہ ہوا ہو تووہ ایسے وقت میں نماز پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسافر جب تک اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ مسافر رہے گا، خواہ ضلع کی حدود میں داخل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، کیوں کہ سفر کے ختم ہونے اور مقیم بن جانے کا مدار ضلع کی حدود میں داخل ہونے پر نہیں، بلکہ اپنے شہر یا قصبے کی آبادی میں داخل ہونے پر ہے۔

اگر سوال سے مقصود کوئی دوسری بات ہے تو وضاحت سے لکھ کر پوچھ لیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(حتى يدخل موضع مقامه) إن سار مدة السفر.

(قوله حتى يدخل موضع مقامه) أي الذي فارق بيوته سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء حاجة لأن مصره متعين للإقامة فلا يحتاج إلى نية جوهرة، ودخل في موضع المقام ما ألحق به كالربض كما أفاده القهستاني (قوله إن سار إلخ) قيد لقوله حتى يدخل إي إنما يدوم على القصر إلى الدخول إن سار ثلاثة أيام."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر،2/ 124،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الثالث: فهو الدخول في الوطن، فالمسافر إذا دخل مصره صار مقيما، سواء دخلها للإقامة أو للاجتياز أو لقضاء حاجة، والخروج بعد ذلك؛ لما روي «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يخرج مسافرا إلى الغزوات ثم يعود إلى المدينة ولا يجدد نية الإقامة» . ولأن مصره متعين للإقامة فلا حاجة إلى التعيين بالنية، وإذا قرب من مصره فحضرت الصلاة فهو مسافر ما لم يدخل، لما روي أن عليا - رضي الله عنه - حين قدم الكوفة من البصرة صلى صلاة السفر وهو ينظر إلى أبيات الكوفة. وروي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أنه قال للمسافر: صل ركعتين ما لم تدخل منزلك؛ ولأن هذا موضع لو خرج إليه على قصد السفر يصير مسافرا فلأن يبقى مسافرا بعد وصوله إليه أولى."

(كتاب الصلاة، فصل، بيان ما يصير المسافر به مقيما،1/ 103،ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں