بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کا صدقہ فطر


سوال

مسافر کا صدقہ فطر؟

جواب

 ملک سے باہر مقیم شخص اگر نصاب کا  مالک ہے تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔ اس لیے  ایسا مسافر اگر اجناس سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اجناس(یعنی: پونے دو کلو گندم یا ساڑھے تین کلو جَو  یا کھجور یا کشمش) کے اعتبار سے  صدقہ فطر ادا کرسکتا ہے، اور اگر قیمت کے اعتبار سے ادا کرنا چاہے تو جہاں مقیم ہے اس ملک اور شہر کے حساب سے مذکورہ اجناس میں سے کسی ایک جنس کی جو قیمت بنتی ہو وہی قیمت ادا کرے گا، چاہے جہاں مقیم ہے وہیں  پر ادا کرے یا اپنے ملک میں کسی سےادا کرنے کے  لیے کہے، لیکن بہر صورت قیمت اس ملک اور شہر کی معتبر ہوگی جہاں وہ خودموجود ہے، البتہ اگر اپنے ملک میں قیمت کے اعتبار سے ادا کرنا چاہے اور اپنے ملک میں قیمت  زیادہ ہو  تو پھر اپنے ملک کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرنا بہتر ہے، کیوں کہ اس میں غریب کا زیادہ فائدہ ہے۔

حاشیة الشرنبلالی علی درر الحکام شرح مجلة الاحکام میں ہے:

(قوله: ونقلها) أي من مكان المال إلى بلد آخر؛ لأن المعتبر في الزكاة مكان المال وفي صدقة الفطر مكان الرأس المخرج عنه في الصحيح مراعاة لا يجاب الحكم في محل وجود سببه كما في الفتح وقال في البرهان الصحيح عن أبي حنيفة وجوب أدائها أي صدقة الفطر حيث هو أي المولى كما اختاره محمد ويرجع أبو يوسف إلى وجوبها حيث هم كالزكاة. اهـ.فقد اعتبر مكان المولى وهو تصحيح المحيط والبدائع وتصحيح الكمال خلافه، قال صاحب البحر: فقد اختلف التصحيح كما ترى فوجب الفحص عن ظاهر الرواية والرجوع إليها والمنقول من النهاية معزيا إلى المبسوط أن العبرة بمكان من تجب عليه لا بمكان المخرج عنه موافقا لتصحيح المحيط فكان هو المذهب ولهذا اختاره قاضي خان في فتاويه مقتصرا عليه. اهـ. قلت قد ظفرت بحمد الله على نص ظاهر الرواية من العناية فوضح به كلام صاحب البحر قال الأكمل - رحمه الله - وطولب بالفرق بين هذه المسألة وبين صدقة الفطر في أنه اعتبر هاهنا مكان المال وفي صدقة الفطر من تجب عليه في ظاهر الرواية وأجيب بأن وجوب الصدقة على المولى في ذمته عن رأسه فحيث كان رأسه وجب عليه ورأس مماليكه في حقه كرأسه في وجوب المؤنة التي هي سبب الصدقة فتجب حيثما كانت رءوسهم والزكاة، فإنها تجب في المال فلهذا إذا هلك سقطت فاعتبر بمكانه. اهـ. وكذا نص على ظاهر الرواية في النهاية في صدقة الفطر فقال: وأما مكان الأداء فهو مكان من تجب عليه في ظاهر الرواية بخلاف الزكاة، فإن الاعتبار فيها بمكان المال اهـ.

(حاشية الشرنبلالي علي درر الحكام شرح مجلة الأحكام: كتاب الزكاة، باب مصارف الزكاة، نقل الزكاة إلى بلد آخر (1/ 192)،ط. دار إحياء الكتب العربية)

وفتاوی رحیمیہ: کتاب الزکاة، باب مایتعلق فی الفطر (۱/ ۱۹۵)،ط۔ دار الاشاعت کراچی)

اور اگر آپ کی مراد مسافر سے   مسافر شرعی ہو  جو عید  کی صبح سفر  میں ہو، یا  پندرہ دن سے کم کے ارادے سے کہیں ٹھہرا ہوا ہو تو اگر اس کے پاس وہاں نصاب کے بقدر مال موجود ہے تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہوگا، اور اگر  نصاب کے بقدر مال اس کے پاس موجود نہیں تو اس پر  صدقہ فطر واجب نہیں۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال:  مسافر جو مکان میں صاحب نصاب ہے اس کو حالت سفر میں اگر قربانی و فطرہ دینے کی قدرت ہو تو اس پر قربانی یافطرہ واجب ہوگا یا نہیں ۔ لیکن فی الحال سفر میں مقدار نصاب مال ساتھ نہیں ہے،  لیکن بوقت ضرورت منگانے پر قادر ہے ایسے شخص پر کیاحکم ہے ؟

الجواب:في الدرالمختار، باب المصرف: وابن السبیل وھو کل من لہ مال لا معہ۔ وفي ردالمحتار عن الفتح: ولا یحل لہ أی لابن السبیل أن یأخذ أکثر من حاجتہ۔ ج۲، ص ۹۹ ۔ وفي الدرالمختار، باب صدقۃ الفطر علی کل حر مسلم ولو صغیرا مجنونا ذي نصاب فاضل عن حاجتہ الأصلیۃ وان لم ینم، وبہ أی بھذا النصاب تحرم الصدقۃ، وتجب الأضحیۃ ۔ وشرائطھا الإسلام، والإقامۃ، والیسار الخ ۔
ان روایات سے یہ امور مستفاد ہوئے:
{۱} ایسے مسافر پر نہ صدقہ فطر واجب ہے اور نہ قربانی، کیوں کہ وجوب صدقہ وحلت اخذ صدقہ مجتمع نہیں ہوتے، اور اس شخص کو زکوٰۃ لینا جائز ہے ۔ پس صدقہ فطر وقربانی واجب نہیں  ۔۔۔ {۵}  سفر سے مراد سفر شرعی ہے (۲)۔ ۲۶؍ شوال ۱۳۲۱؁ ھ(تتمہ ثانیہ ص ۸۰)۔

(امداد الفتاوی: کتاب الزکاة، صدقة الفطر وغیرہا، بعنوان:مسافر پر قربانی واجب نہیں صدقہ فطر واجب ہے(۲/ ۱۱۱)،ط۔مکتبة دار  العلوم کراچی)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں