بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کا مسافر امام کی اقتداء کا حکم


سوال

میں ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوں، تقریباً سفر میں نماز پڑھنے کو ملتی ہے ،میں  دو مرتبہ کچھ اُلجھن میں پھنس گیا :

1.ایک مرتبہ سفر میں عشاء کی  نماز کے لیے رکا ،مسجد میں جماعت ہو رہی تھی اور قراءت چل رہی  تھی، میں وضو کر کے چار رکعت کی نيت کر کے جماعت میں شا مل ہو گیا ،پہلی رکعت مجھ  سے فوت ہوگئی ،پیش امام  جو نے دوسری ركعت میں نماز پوری کرلی وہ نماز  بھی  سفر میں تھی، مجھے نہیں پتہ تھا، میں نے ایک رکعت جو فوت ہو گئی  تھی  وہ پڑھ کر سلام پھیر دیا،کیا مجھے  چار رکعت  پر سلام پھرنا  چاہیے تھا ، یا دو رکعت  صحیح  تھی؟

2. اور دوسری مرتبہ بھی عصر  کی نماز میں  ایسا  ہوا وہ بھی پیش امام مسافر تھا ،مجھے نہیں پتہ تھا وہاں بھی میں نے دو رکعت ادا کیے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی  مسافر اگر جماعت کی نماز میں شامل ہو رہا ہو تو اس کے لیے وقتی فرض کی ادائیگی کی نیت کرنا ضروری ہے،  تعدادِ  رکعات کی نیت کرنا ضروری نہیں ، پس اگر مسافر  مقتدی نے امام کو مقیم جان کر  اقتدا  کی اور چار رکعت کی نیت کرلی جبکہ امام بھی مسافر تھا  اور امام نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو مسافر بھی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے گا اور مسافر  مقتدی مسبوق ہونے کی صورت میں بھی قصر ہی کرے گا.

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل نے   دونوں مرتبہ جو نمازیں قصر کرکے  پڑھی ہیں وہ ادا ہوگئی  ہیں ،دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ۔

در مختار میں ہے :

"(ولا بد من التعيين عند النية) فلو جهل الفرضية لم يجز؛ ولو علم ولم يميز الفرض من غيره، إن نوى الفرض في الكل جاز، وكذا لو أم غيره فيما لا سنة قبلها (لفرض) أنه ظهر أو عصر قرنه باليوم أو الوقت أو لا  هو الأصح (ولو) الفرض (قضاء) لكنه يعين ظهر يوم كذا على المعتمد، والأسهل نية أول ظهر عليه أو آخر ظهر. وفي القهستاني عن المنية: لا يشترط ذلك في الأصح وسيجيء آخر الكتاب (وواجب) أنه وتر أو نذر أو سجود تلاوة وكذا شكر، بخلاف سهو  (دون) تعيين (عدد ركعاته) لحصولها ضمنا، فلا يضر الخطأ في عددها".

(فتاوی شامی ،کتاب الصلاۃ،ج:1،ص:418،سعید)

العنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے :

"(ويستحب للإمام إذا سلم أن يقول أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر) أي مسافرون، وهذا يدل على أن العلم بحال الإمام بكونه مقيما أو مسافرا ليس بشرط لأنهم إن علموا أنه مسافر فقوله هذا عبث، وإن علموا أنه مقيم كان كاذبا فدل على أن المراد به إذا لم يعلموا، وهو مخالف لما ذكر في فتاوى قاضي خان وغيره أن من اقتدى بإمام لا يدري أنه مقيم أو مسافر لا يصح اقتداؤه.

والتوفيق بينهما ما قيل إن ذلك محمول على ما إذا بنوا أمر الإمام على ظاهر حال الإقامة، والحال أنه ليس بمقيم وسلم على رأس الركعتين وتفرقوا على ذلك لاعتقادهم فساد   صلاة الإمام. وأما إذا علموا بعد الصلاة بحال الإمام جازت صلاتهم، وإن لم يعلموا بحاله وقت الاقتداء، وبهذا القول يعلم حاله في الآخرة بقوله فإن قيل فعلى هذا التقرير يجب أن يكون هذا القول واجبا على الإمام لأن إصلاح صلاة القوم يحصل به، وما يحصل به ذلك فهو واجب على الإمام فكيف قال ويستحب؟ أجيب بأن إصلاح صلاتهم ليس بمتوقف على هذا القول ألبتة بل إذا سلم على رأس الركعتين وعلم عدم سهوه فالظاهر من حاله أنه مسافر حملا لأمره على الصلاح فكان قوله هذا بعد ذلك زيادة إعلام بأنه مسافر وإزالة للتهمة عن نفسه واقتداء بالنبي - صلى الله عليه وسلم - فإنه قاله حين صلى بأهل مكة وهو مسافر فكان أمرا مستحبا لا واجبا".

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،ج:2،ص:42،دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"اگر امام کا حال معلوم نا ہو کہ وہ مسافر ہے یا مقیم ہے تو دو یا چار کی تعیین کی کوئی ضرورت نہیں ،محض ظہر کی نیت کافی ہے ،عدد رکعات کی تعیین  نیت میں  مسافر یا مقیم  کسی کے لیے بھی ضروری نہیں ."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،ج:7،ص:528،ادارۃ الفاروق)

فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے :

"سوال :ایک مسافر شخص مسجد میں آیا اور غالب گمان کے موافق امام کی اقتداء میں ظہر کی چار رکعت کی نیت کرلی ،بعد میں معلوم ہوا کہ امام بھی مسافر ہے ،اب نماز صحیح ہوئی یا نہیں ؟

الجواب :تعداد ِ رکعت میں غلطی نماز کے منافی نہیں ہے ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں مسافرمقتدی کی نماز مسافر امام کے پیچھے صحیح ہوگئی ،ہاں ایک شبہ ہوسکتا ہے کہ امام کا حال  معلوم  نہیں پھر کیسے نماز صحیح ہوئی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداء میں ضروری نہیں بلکہ درمیان میں یا نماز کے بعد متصل  معلوم ہونا صحت نماز کے لیے کافی ہے ۔"

(کتاب الصلاۃ،ج:2،ص:521،زمزم پبلشرز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں