بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کراچی کے مسافر کا لاہور میں پندرہ دن اقامت کرنے کے بعد اسلام اباد جانے پر نماز کا حکم


سوال

ایک شخص کراچی کا رہائشی ہے، اس نے اپنے گھر سے لاہور جاتے ہوئے  صرف 15 دن لاہور ٹھہرنے کی نیت کی تھی،اور لاہور روانہ ہوا، چونکہ نیت 15 دن کی تھی تو لاہور میں پوری نماز ادا کرتا رہا، کچھ دن وہاں رہا، اور پھر دو تین دن کے لیے اسلام آباد  چلا گیاِ، اسلام آباد جانا ابتدائی پلان کا حصہ نہیں تھا، اس لیے اس نے ایک شہر سے دوسرے شہر کے سفر میں 14 دن سے کم قیام کی وجہ سے خود کو مسافر قیاس کر کے وہاں 2 یا 3 دن قصر نماز پڑھی، پھر لاہور واپس آگیا، اور وہاں پوری نماز شروع کر دی۔ سوال یہ ہے کہ اسلام آ باد میں قصر نماز پڑھنا درست تھا؟ یا اعادہ کرنا ہو گا ؟

سوال نمبر ایک: لاہور کے پہلے اسپیل میں تو 15 دن وہاں رکنے کا ارادہ تھا تو وہاں نماز پوری پڑھنی تھی یا قصر کرنی تھی ؟

سوال نمبر دو: اسلام آباد میں نماز کیسے پڑھنی تھی؟

سوال نمبر تین:اسلام آباد سے واپس آنے کے بعد تو کنفرم پتا تھا کہ اب لاہور 5 یا 7 دن مزید رکنا ہے اس سے زیادہ نہیں تو اب نماز کیسے پڑھنی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص  اپنے شہر کی حدود سے 48 میل (77.24 کلو میٹر)یا اس سے دور کہیں جانے کی نیت سےنکلے،اور اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہر نکل جائےتو وہ  راستے  میں قصر کرے گا،یعنی اکیلے نماز پڑھنےیا امام بننے کی صورت میں چار رکعت والی فرض نماز دو رکعت پڑھے / پڑھائے گا،نیز اگر وہاں پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو تو وہاں بھی قصر کرے گا، اور  اگر وہاں پندہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت ہو تو وہاں پر مقیم شمار ہو گا، اور  پوری نماز پڑھنی ہوگی،لہذا صورت میں سائل کی لاہور میں 15 دن قیام کی نیت تھی اس لیے سائل لاہور میں مقیم تھا، اور سائل کا لاہور میں پوری نماز ادا کرنا ٹھیک تھا، پھر سائل لاہور میں پندرہ دن پورے کرنے سے پہلے  دو تین دن کے لیے اسلام آباد گیا تو لاہور وطن اقامت باطل ہوگیااور مسافتِ شرعی پائے جانے کی وجہ سے وہ مسافر شمار ہوگیا، لہذا اسلام آبادمیں سائل کا نماز قصر ادا کرنا درست تھا، اعادہ  کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور پھر سائل کے اسلام آبادسے لاہور  آتے ہوئے 5 یا 7 دن کے قیام کا ارادہ تھا15 دن سے کم ہونے کی وجہ سے وہ لاہور میں  مسافر   ہے، سائل لاہور میں قصر نماز ادا کرے پوری نماز پڑھنا درست نہیں،جو نمازیں امام کے پیچھے پڑھی ہیں وہ  ہوگئیں، اور چار رکعت والی وہ نمازیں جو اس نے اکیلے پڑھی ہیں اور درمیان والی التحیات میں قعدہ میں بیٹھا ہے  وہ نمازیں بھی ہو گئیں۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي) بيان للموضع الذي يبتدأ فيه القصر ولشرط القصر ومدته وحكمه أما الأول فهو مجاوزة بيوت المصر لما صح عنه - عليه السلام :أنه قصر العصر بذي الحليفة  وعن علي أنه خرج من البصرة فصلى الظهر أربعا ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين والخص بالخاء المعجمة والصاد المهملة بيت من قصب كذا ضبطه في السراج الوهاج."

(کتاب الصلوٰة ،باب المسافر،ج:2 ص:138 ط: دارالكتاب الاسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتي يترخص برخصة المسافرين ... و لايزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية. "

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج:1 ص:139 ط: المطبعة الکبری الأمیریة)

تنوير الابصار مع الدرالمختار مىں هے :

"(و)یبطل (وطن الاقامة بمثلہ و) بالوطن الاصلی (و) بانشاء (السفر)."

( کتاب الصلوۃ ،باب صلاة المسافر،132/2،سعيد )

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ووطن) الإقامة ينتقض بالوطن الأصلي؛ لأنه فوقه، وبوطن الإقامة أيضا؛ لأنه مثله، والشيء يجوز أن ينسخ بمثله، وينتقض بالسفر أيضا؛ لأن توطنه في هذا المقام ليس للقرار ولكن لحاجة، فإذا سافر منه يستدل به على قضاء حاجته فصار معرضا عن التوطن به، فصار ناقضا له دلالة، ولا ينتقض وطن الإقامة بوطن السكنى؛ لأنه دونه فلا ينسخه."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما، ج:1، ص:103، ط:دار الكتب العلمية)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"فالحاصل أن الأوطان ثلاثة. وطن قرار ويسمى ‌الوطن ‌الأصلي وهو أنه إذا نشأ ببلدة أو تأهل بها توطن بها. ووطن مستعار وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع خمسة عشر يوما وهو بعيد عن وطنه الأصلي ووطن سكنى وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع أقل من خمسة عشر يوما أو خمسة عشر يوما وهو قريب من وطنه الأصلي، ثم ‌الوطن ‌الأصلي لا ينقضه إلا وطن أصلي مثله، والوطن المستعار ينقضه ‌الوطن ‌الأصلي ووطن مستعار مثله والسفر لا ينقضه وطن السكنى لأنه دونه، ووطن السكنى ينقضه كل شيء إلا الخروج منه لا على نية السفر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، اقتداء المسافر بالمقيم في الصلاة، ج:2، ص:107، ط:دار المعرفة)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ويبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي إذا انتقل عن الأول بأهله وأما إذا لم ينتقل بأهله ولكنه استحدث أهلا ببلدة أخرى فلا يبطل وطنه الأول ويتم فيهما ولا يبطل الوطن الأصلي بإنشاء السفر وبوطن الإقامة ووطن الإقامة يبطل بوطن الإقامة وبإنشاء السفر وبالوطن الأصلي، هكذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج:1، ص:142، ط:دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"ولو كان له ‌أهل ‌بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، اقتداء مسافر بمقيم في الصلاة، ج:1، ص:147، ط:دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ووطن) الإقامة ينتقض بالوطن الأصلي؛ لأنه فوقه، وبوطن الإقامة أيضا؛ لأنه مثله، والشيء يجوز أن ينسخ بمثله، وينتقض بالسفر أيضا؛ لأن توطنه في هذا المقام ليس للقرار ولكن لحاجة، فإذا سافر منه يستدل به على قضاء حاجته فصار معرضا عن التوطن به، فصار ناقضا له دلالة، ولا ينتقض وطن الإقامة بوطن السكنى؛ لأنه دونه فلا ينسخه."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما، ج:1، ص:103، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما....(قوله بل يتم فيهما) أي بمجرد الدخول وإن لم ينو إقامة ط."

‌‌(كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة، ج:2، ص:132، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں