اگر امام مسافر ہے اور مقتدی مقیم ہے تواس صورت میں کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر امام مسافر ہے اور مقتدی مقیم ہے تو ایسی صورت میں مقیم مقتدی مسافرامام کی اقتدا میں دورکعت اداکردے،پھرجب مسافرامام دورکعت پوری کرکے سلام پھیردے تو مقیم مقتدی اس کے ساتھ سلام نہ پھیرے، بلکہ کھڑا ہوجائے اور اپنی بقیہ نماز لاحق کی طرح مکمل کرے،یعنی قراءت کے بغیر تھوڑی دیر کھڑے ہو کر باقی نماز پوری کرے۔
الدرالمختار میں ہے:
"واللاحق من فاتته) الركعات (كلّها أو بعضها) لكن (بعد اقتدائه) بعذر كغفلة ورحمة وسبق حدث وصلاة خوف ومقيم ائتمّ بمسافر، وكذا بلا عذر؛ بأن سبق إمامه في ركوع وسجود فإنه يقضي ركعةوحكمه كمؤتمّ فلا يأتي بقراءة".
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،ج:۱،ص:۵۹۴۔۵۹۵،ط:سعید)
وفيه أيضاً:
"(وصحّ اقتداء المقيم بالمسافر في الوقت وبعده فإذا قام) المقيم (إلى الإتمام لا يقرأ) ولا يسجد للسهو (في الأصحّ) لأنّه كاللاحق والقعدتان فرض عليه وقيل لا قنية".
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،ج:۲،ص:۱۲۹،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100137
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن