بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر امام کے پیچھے مقیم کی اقتدا درست ہے


سوال

اگر کوئی حافظ قرآن جو تھوڑی بہت دین کی سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہو کہ نماز پڑھا سکے،‌ لیکن اگر وہ مروجہ تبلیغی جماعت کے تحت اپنے گاؤں یا شہر سے دور جماعت میں نکل جاۓ جتنا کہ شرعی اعتبار سے مسافر ہونے کے لیے کافی ہو تو کیا ایسے شخص کا امامت کرنا چار رکعتوں والی نماز کی،  آیا یہ جائز ہے یا جائز نہیں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اولاً مقامی امام نماز پڑھائے ،مسافرامام بھی ایسے مقتديوں کی امامت کرا سکتے ہے جو  مقیم ہوں۔  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر ہونے کے باوجود اہلِ مکہ کی امامت کرائی تھی اور اپنی نماز دو رکعت ادا کرنے کے بعد باقاعدہ اعلان فرمایا تھا : تم اپنی نماز پوری کرلو؛ کیوں کہ ہم مسافر ہیں۔

پس صورتِ مسئولہ مذکورہ حافظ کا چار رکعت والی نماز میں امامت کرنا درست ہے۔ البتہ  وه دو ركعت پر سلام پھير ديں اور مقیم لوگ اپنی  نماز  پوری كرليں بہتر ہے کہ نماز سے پہلے اعلان کر دے کہ امام مسافر ہے تاکہ امام کے سلام کے بعد مقامی(غیر مسافر) مقتدی اپنی بقیہ نماز  پوری کر لیں۔

مرقي الفلاح میں ہے:

"وبعكسه" بأن اقتدى مقيم بمسافر "صح" الاقتداء "فيهما" أي في الوقت وفيما بعد خروجه؛ لأنه صلى الله عليه وسلم صلى بأهل مكة وهو مسافر، وقال: "أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر".

( حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ١/ ٤٢٧)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں