بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر اگر وطنِ اصلی سے گزرے تو مقیم بن جائے گا؟


سوال

1۔ لاہور سے ایک جماعت کراچی آئی ہے،  اب کراچی سے راۓونڈ جاۓگی ، پھر 5 دن بعد  وہاں سے آگے جاۓگی،  تو سوال یہ ہے کہ راۓونڈ پہنچنے پر یہ مسافر ہی کہلائيں گے یا مقیم بن جائيں گے؟

2۔ مسافر شخص بس یا ٹرین کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے  اپنے شہر سے گزرتے ہوئے  بس اڈے پر رک جائے  تو  مسافر ہی شمار ہوگا  یا مقیم بن جاۓ گا ؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ جماعت  والے لاہور ہی کے رہائشی ہیں یعنی لاہور ان کا وطنِ اصلی ہے تولاہور میں  یہ مقیم شمار ہوں گے، اور رائے ونڈ  چوں کہ لاہور سے الگ علاقہ ہے ، لہذا رائے ونڈ میں پندرہ دن قیام کی نیت اور نظم پہلے سے نہیں تو رائیونڈ میں  مسافر شمار ہوں گے، پھر اگر رائیونڈ سے لاہورچلے گئے تو  لاہور پہنچتے ہی مقیم بن جائیں گے۔

2۔  اگر کوئی شخص سفر کے دوران اپنے وطنِ اصلی سے گزرے تو وہ شہر میں داخل ہوتے ہی مقیم ہوجائے گا، خواہ وہاں رکنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، اور جس جگہ جارہا ہے اگر وہ وطنِ اصلی سے مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو وہ وہاں پہنچنے تک مقیم ہی رہے گا، اور اگر وہ جگہ وطنِ اصلی سے مسافتِ سفر پر واقع ہے تو وطنِ اصلی کی آبادی سے نکلنے کے بعد وہ پھر مسافر ہوجائے گا۔

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"فالحاصل أن الأوطان ثلاثة. وطن قرار ويسمى ‌الوطن ‌الأصلي وهو أنه إذا نشأ ببلدة أو تأهل بها توطن بها. ووطن مستعار وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع خمسة عشر يوما وهو بعيد عن وطنه الأصلي ووطن سكنى وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع أقل من خمسة عشر يوما أو خمسة عشر يوما وهو قريب من وطنه الأصلي، ثم ‌الوطن ‌الأصلي لا ينقضه إلا وطن أصلي مثله، والوطن المستعار ينقضه ‌الوطن ‌الأصلي ووطن مستعار مثله والسفر لا ينقضه وطن السكنى لأنه دونه، ووطن السكنى ينقضه كل شيء إلا الخروج منه لا على نية السفر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، اقتداء المسافر بالمقيم في الصلاة، ج:2، ص:107، ط:دار المعرفة)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ويبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي إذا انتقل عن الأول بأهله وأما إذا لم ينتقل بأهله ولكنه استحدث أهلا ببلدة أخرى فلا يبطل وطنه الأول ويتم فيهما ولا يبطل الوطن الأصلي بإنشاء السفر وبوطن الإقامة ووطن الإقامة يبطل بوطن الإقامة وبإنشاء السفر وبالوطن الأصلي، هكذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج:1، ص:142، ط:دار الفکر)

وفيه أيضاً:

"وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة ‌وإن ‌لم ‌ينو ‌الإقامة فيه سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء الحاجة كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج:1، ص:142، ط:دار الفکر)

تحفۃ الفقہاء میں ہے:

"فهو بدخول مصره الذي هو وطنه الأصلي يصير مقيما ‌وإن ‌لم ‌ينو ‌الإقامة."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:1، ص:152، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ‌حتى ‌يدخل ‌موضع ‌مقامه) أي الذي فارق بيوته سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء حاجة لأن مصره متعين للإقامة فلا يحتاج إلى نية جوهرة، ودخل في موضع المقام ما ألحق به كالربض كما أفاده القهستاني (قوله إن سار إلخ) قيد لقوله حتى يدخل إي إنما يدوم على القصر إلى الدخول إن سار ثلاثة أيام."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:124، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں