بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوائی جہاز اگر چند منٹوں میں مسافت طے کرلے تو بھی انسان مسافر کہلائے گا


سوال

ہوائی جهاز اگر مسافت سفر چند گھنٹوں میں طے کرے تو بھی ایک شخص مسافرکہلائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ احادیث میں جو سفر کی مسافت بیان کی گئی ہے، وہ اس زمانے کے وسائل سفر کو سامنے رکھتے ہوئے بیان کی گئی ہے (جب تیز رفتار سواریاں نہیں تھیں اور مسافت کی پیمائش کے موجودہ زمانے کی طرح باریک سے باریک معیارات بھی نہیں تھے) وہ یہ کہ سفر میں اگر اتنا دور جانا ہو کہ منزل تک پہنچنے میں پیدل، متوسط رفتار سے، راستوں میں آرام کرتے ہوئے، دن کو چلا جائے، تو تین دن لگ جائیں ۔

اس کو بنیاد بنا کر فقہاء نے آسانی کے لیے ہر زمانے اور ہر علاقے کے رائج پیمائش کے معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے تین دن کی مسافت کی تحدید کی ہے، چنانچہ ہمارے زمانے میں رائج معیار پیمائش کے اعتبار سے سفر شرعی کی مسافت سوا ستتر کلو میٹر طے کی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرکوئی شخص بقصد سفر ہوائی جہاز کےذریعہ کئی دنوں کے سفر کو  چند گھنٹوں ميں  طے کرلیتاہےتو اگر طے کردہ سفر اتناہو کہ متوسط رفتار سے چلاجائے توتین دن یا اس سے زیادہ لگ جائے تو یہ شخص  بھی مسافر کہلائے گا ۔

ہدایہ میں ہے :

" السفر الذي يتغير به الأحكام أن يقصد الإنسان مسيرة ثلاثة أيام ولياليها بسير الإبل ومشي الأقدام " لقوله عليه الصلاة والسلام " يمسح المقيم كمال يوم وليلة والمسافر ثلاثة أيام ولياليها " عمت الرخصة الجنس ومن ضرورته عموم التقدير وقدر أبو يوسف رحمه الله بيومين وأكثر اليوم الثالث والشافعي بيوم وليلة في قول وكفى بالسنة حجة عليهما " والسير المذكور هو الوسط " وعن أبي حنيفة رحمه الله التقدير بالمراحل وهو قريب من الأول."

(كتاب الصلاة ، باب صلاة المسافر ، 1/ 80،ط:دارإحياء التراث العربي)

تبین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے :

"وأما الثالث : وهو ‌بيان ‌مسافة السفر فقد قال أصحابنا أقل مسافة تتغير فيها الأحكام مسيرة ثلاثة أيام بسير متوسط، وهو سير الإبل ومشي الأقدام في أقصر أيام السنة وعن أبي يوسف أنه مقدر بيومين وأكثر اليوم الثالث وعند الشافعي بيوم وليلة والحجة عليهما قوله  عليه الصلاة والسلام  «يمسح المقيم يوما وليلة، والمسافر ثلاثة أيام ولياليها."

(كتاب الصلاة ، باب صلاة المسافر ، 1/ 209 ، ط:دارالكتب الإسلامى)

جواہر الفقہ  میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے  ہیں :

"سفر شرعی جس کے لیے احکام مخصوص ہیں ، تین شرطوں پر موقوف ہے ، اول یہ کہ سفر کم ازکم اتنی دور کا ہو جس کو پیادہ چلنے والے بسہولت تین دن میں قطع کرسکیں ،خواہ ریل وغیرہ کے ذریعہ ایک دو گھنٹہ ہی میں قطع ہوسکتا ہو، جس کی مقدار آج کل تقریبا اڑتالیس میل ہے۔ "

(احکام سفر،ج: 3 ، ص : 74 ، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144402100538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں