بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافتِ سفر زمین اور پہاڑی راستوں میں


سوال

ہدایہ میں ہے کہ پانی اور پہاڑ کے راستہ میں اس کی حالت کا اعتبار ہوگا، لہذا اس فتوے کی دلیل مطلوب ہے: زمینی اور پہاڑی دونوں طرح کے علاقوں میں قصر کی مسافت اڑتالیس میل (تقریبا سوا ستتر کلو میٹر) ہے؟

جواب

ہدایہ میں ذکر کردہ جزئیہ تقریباً فقہ کی ہر کتاب میں تعبیر کے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے ،ان جزئیات کا حاصل یہ ہے کہ مسافتِ سفر (48 میل)کے تعین کی تفہیم دو طرح سے کی جاتی ہے ،ایک یہ کہ دن کے وقت اس ترتیب سے چلیں کہ چلتے ہوئے پچھلے پہر پڑاؤ کیا جائے ،اور پھر اگلے روز سفر شروع کیا جائے ،اس ترتیب سے تین دن کی مسافت اڑتالیس میل کی مسافت بنتی ہے،اسی کو اونٹ کی چال چلتے ہوئے تین دن کی مسافت سے تعبیر کیا جاتا ہے ،،اسی اڑتالیس میل کی دوسری تفہیم یوں کی جاتی ہے کہ فطری طور پر راستے کی سہولت اور دشواری کی وجہ سے مسافت قطع کرنے میں وقت کی کثرت کا لحاظ بھی  کیا جاتا ہے،اگر کوئی شخص ہموار راستے سے اپنے ایک مرحلہ کے پڑاؤ تک جلدی جلدی پہنچ جاتا ہے اور دشوار راستے والا تاخیر سے پہنچتا ہے تو اس فطری تفاوت پر مبنی  حالت کا اعتبار تو ہوگا مگر اس سے مسافتِ سفر (48 میل )میں کمی بیشی کا سوال نہیں ہوگا ،اس بات کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ فقہاء نے مسافتِ سفر (48 میل)قطع کرنے کا اندازہ درمیانی سیر(چال)سے کیا ہے ،لہذا اگر کوئی زیادہ تیزی سے یہ مسافت قطع کرے گا ،بلا توقف منزل تک پہنچ جائے تو وہ بھی مسافر شمار ہوگا ،اور اگر کوئی سست رفتار شخص یہی مسافت تین سے زائد ایام میں طے کر کے منزل تک پہنچا ہو تو اس کی سست روی کی وجہ سے 48 میل کی مسافت کو آدھا شمار نہیں کیا جائے گا ۔

الغرض سفر کی مسافت شرعی میل کے حساب سے 48 میل شرعی ہے  ،اس کا اندازہ لگانے کے لیے درمیانی چال چلنے والے مسافر اور سواری کے حساب سے مخصوص ترتیب کے ساتھ تین ایام کا وقت بتایا گیا ہے ،باقی سیر (چال)میں راستے کی سہولت اور دشواری(صحرائی ،پہاڑی،یا بری)کی حالت کے اعتبار کا تعلق "سیر" یعنی چال کے ساتھ ہے نہ کہ شرعی مسافت 48 میل کے ساتھ ،پس جس راستے سے بھی اڑتالیس میل کی مسافت طے ہو ،اسے سفر ِ شرعی کہا جائے گا ،گویا کہ سفر میں اصل مدار مسافت ہے ،مدت اور وقت کا بیان ایک اندازے اور تخمین کے طور پر بیان ہوتا ہے۔

الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وفي الدر المختار :(بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر؛ ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني.

وفي الشامي :(قوله باليسير الوسط)ويعتبر ‌في ‌الجبل بما يناسبه من السير لأنه يكون صعودا وهبوطا ومضيقا ووعرا فيكون مشي الإبل والأقدام فيه دون سيرهما في السهل. وفي البحر يعتبر اعتدال الريح على المفتى به إمداد فيعتبر في كل ذلك السير المعتاد فيه وذلك معلوم عند الناس فيرجع إليهم عند الاشتباه بدائع، وخرج سير البقر بجر العجلة ونحوه لأنه أبطأ السير كما إن أسرعه سير الفرس والبريد بحر(قوله فوصل) أي إلى مكان مسافته ثلاثة أيام بالسير المعتاد بحر. وظاهره أنه كذلك لو وصل إليه في زمن يسير بكرامة."

(کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المسافر ،ج:2،ص:123،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا يعتبر السير في البر بالسير في البحر ولا السير في البحر بالسير في البر وإنما يعتبر في كل موضع منهما ما يليق بحاله، كذا في الجوهرة النيرة.وتعتبر المدة ‌من ‌أي ‌طريق ‌أخذ ‌فيه، كذا في البحر الرائق فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها والآخر دونها فسلك الطريق الأبعد كان مسافرا عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان، وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الصلاۃ ،باب فی صلاۃ المسافر ،ج:1،ص:138،ط:رشیدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

"وأما السير في البحر فيعتبر ما يليق بحاله، وهو أن يكون مسافة ثلاثة فيه إذا كانت تلك الرياح معتدلة، وإن كانت تلك المسافة بحيث تقطع في البر في يوم كما في الجبل يعتبر كونها من طريق الجبل بالسير الوسط ثلاثة أيام، وإن كانت تقطع من طريق السهل بيوم، فالحاصل أن تعتبر المدة ‌من ‌أي ‌طريق ‌أخذ ‌فيه."

(کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المسافر ،ج:2،ص:140،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں