۱۔"مصعب" جو کہ حضور ﷺ کے ایک پیارے صحابی کا نام مبارک بھی ہے اس کا درست تلفظ کیا "مُصعب" یا "مَصعب" ہے؟
۲۔اور دوسرا یہ کہ کیا نام کے اثرات ہونے کا قرآن، حدیث یا فقہ وغیرہ سے ثابت ہوتا ہے؟
۱۔"مصعب" معروف صحابی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا نام ہے، اس کا درست تلفظ:"مُصْعَبْ"ہے، یعنی میم کے پیش اور صاد کے سکون کے ساتھ ۔
۲۔ناموں کے اثرات انسان کی شخصیت، کردار اور اخلاق پر عموماً پڑتے ہیں، اچھے نام کے اچھے اثرات اور برے نام کے برے اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں؛ لہٰذا نام رکھنے کے حوالے سے حکم یہ ہے کہ یا تو انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام، صحابیات مکرمات اور نیک مردوں یا عورتوں کے نام پر اولاد کا نام رکھا جائے یا اچھے معنیٰ پر مشتمل نام رکھا جائے۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو اچھے ناموں سے تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔
البتہ آزمائشوں یا بیماریوں کے آنے، نصیب کے اچھا یا برا ہونے کا مدار نام پر نہیں ہے، اچھی نسبت سے نام رکھنے یا اچھے معنی والا نام رکھنے کے باوجود بھی آزمائش آسکتی ہے، اسے من جانب اللہ سمجھ کر اس کی طرف رجوع کیا جائے۔
الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية میں ہے:
"[صعب] الصَعْبُ: نقيض الذَلولِ. وامرأة صعبة ونِساءٌ صَعْباتٌ بالتسكين، لأنه صفة. والمُصْعَبُ: الفحل، وبه سُمِّيَ الرجل مُصْعَباً. وصَعُبَ الأمر صُعوبة: صار صَعْباً. وأَصْعَبْتُ الأمر: وجدته صعباً. وأصعبت الجملَ فهو مُصْعَبٌ، إذا تركتَه فلم تركبه ولم يَمسَسْه حبل حتى صار صعباً. واستصعب عليه الأمر، أي صَعُبَ. والمصعبان: مصعب بن الزبير، وابنه عيسى ابن مصعب. وكان ذو القرنين المنذر بن ماء السماء يلقب بالصعب."
(1 / 163،فصل الصاد، ط: دار العلم للملايين - بيروت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100140
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن