جس طرح پگڑی ہمارے دین میں حرام ہے، اسی طرح پگڑی کے اندر انسان اپنی بروکری کا کام کرتا ہے تو وہ اس کے لیے حلال ہوگا یا وہ بھی حرام ہوگا؟
بصورتِ مسئولہ شرعی طور پر مروجہ پگڑی سسٹم جائزنہیں ہے، اس لیے ایسے معاملہ کرنے والے کے ساتھ بروکری کرنا گناہ کے کام پر معاونت کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص پگڑی کے مکان یا دکان میں اضافی تعمیر کرے تو ایسی صورت میں خرید و فروخت کی گنجائش ہوگی، اور اس صورت میں بروکری کرنا اور اس پر کمیشن لینا جائز ہوگا۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"{و لا تعاونوا على الاثم و العدوان}، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات و هو البر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم".
(تفسیر ابن کثیر، ج:2، ص:10، ط:دارالسلام)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: و في الدلال و السمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم، و في الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال : أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام و عنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج:6، ص:63، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144301200052
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن