بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتد کا نکاح میں گواہ بننے سے نکاح کا حکم/ مرتد کا توبہ کرنے کے بارے میں تفصیل


سوال

اگر کوئی بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا تھا(یعنی مرتد ہو گیا تھا) اور اسے پتہ بھی تھا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، لیکن پھر بھی کچھ نہ کہا اور نکاح کے خطبے میں گواہ کے طور پر پیش ہوا اور نکاح کے خطبے میں بیٹھ گیا تو نکاح ہو گیا یا نہیں ؟

اور اب یہ مرتد بندہ اگر دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو اس مرتد بندے کی توبہ اور تجدید ایمان ہو سکتا ہے؟

 جواب دیں مہربانی ہوگی..

جواب

جو شخص مرتد ہوجائے  اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے،تو ایسے  شخص کو  مسلمانوں کے نکاح میں گواہ بننا/بنانا درست نہیں ہے،اس لیے کہ مسلمان کا  نکاح صحیح ہونے کے لیے دو مسلمان، عاقل، بالغ اور آزاد مردوں یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، غیر مسلم /مرتدگواہوں کی موجودگی میں مسلمان کا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

لہٰذا اگر مذکورہ مرتد  شخص کو   نکاح کا گواہ بنا/ بنایا  گیا(اور مجلسِ نکاح میں اس کے علاوہ کوئی مسلمان  گواہ موجود نہیں تھا) تو نکاح منعقد نہیں ہوا، البتہ  اگر مذکورہ شخص   کے علاوہ دیگرافراد بھی مجلسِ نکاح میں موجود تھے اور اعلانیہ نکاح ہوا ہے تو  نکاح منعقد ہو گیا۔

ارتداد کے بعد توبہ کرنے کا طریقہ اور توبہ قبول ہونے کے بارے میں وضاحت یہ ہے کہ : کسی کفریہ قول یا عمل کا ارتکاب کرنے والا  اگر صدق دل سے توبہ کرلے تو شرعاً اس  کی توبہ قبول  ہوجاتی ہے، لہذا   اگر کوئی شخص (العیاذ باللہ) مرتد ہونے کے بعد اس کے کیے ہوئے فعل یا قول سے توبہ کرکے آئندہ تمام کفر و شرک کی باتوں سے پرہیز کرنے کا عہد کرے اور دل کے یقین کے ساتھ زبان سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھےاور جملہ عقائد پر ایمان لے آئے، تو وہ شخص شرعاً دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے اور  توبہ کے بعد ایمان کی دولت مل جاتی ہے، اور توبہ کرنے کے بعد اس شخص کا حکم بھی عام مسلمانوں کی طرح ہوجاتا ہے،نیز اگر کلمہ کفر یا کفریہ عمل لوگوں کے سامنے کیا ہو تو اس صورت میں ان لوگوں کے سامنے تجدید ایمان کا اظہار کر دینا چاہیے تاکہ کسی قسم کی بدگمانی نہ رہے اور اس پر مسلمانوں والے دنیوی احکام (مثلاً: مسلمان عورت یا مرد سے نکاح، مرنے کی صورت میں مسنون غسل، نماز جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین وغیرہ) جاری ہوسکیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"و أما صفات الشاهد الذي ينعقد به النكاح ... و منها: الإسلام في نكاح المسلم المسلمة؛ فلاينعقد نكاح المسلم المسلمة بشهادة الكفار؛ لأن الكافر ليس من أهل الولاية على المسلم، قال الله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141]، و كذا لايملك الكافر قبول نكاح المسلم و لو قضى قاض بشهادته على المسلم ينقض قضاؤه."

(ج:2، ص:253، ط:دار الكتب العلمية)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فإن استتيب فتاب خلي سبيله، ولكن توبته أن ‌يأتي ‌بكلمة ‌الشهادة، ويتبرأ عن الأديان كلها سوى الإسلام أو يتبرى عما كان انتقل إليه، فإن تمام الإسلام من اليهودي التبري عن اليهودية، ومن النصراني التبري عن النصرانية، ومن المرتد التبري عن كل ملة سوى الإسلام؛ لأنه ليس للمرتد ملة منفعة، وإن تبرأ عما انتقل إليه فقد حصل ما هو المقصود."

(كتاب السير، باب المرتدين، ج: 10، ص: 99،  ط: دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا ارتد المسلم عن الإسلام والعياذ بالله عرض عليه الإسلام، فإن كانت له شبهة أبداها كشفت إلا أن العرض على ما قالوا غير واجب بل مستحب كذا في فتح القدير."

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين،ج:2، ص: 253، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"ولا فرق في ذلك بين الحر والعبد كذا في السراج الوهاج وإسلامه أن ‌يأتي ‌بكلمة ‌الشهادة، ويتبرأ عن الأديان كلها سوى الإسلام، وإن تبرأ عما انتقل إليه كفى كذا في المحيط".

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج:2، ص:253، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں