بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتہن کا مرہونہ زمین سےفصل اگانےکا حکم


سوال

راہن زمین کورہن کے طور پر رکھے اور مرتہن بغیر اذن راہن کے اس زمین میں فصل بوئے ،لیکن فصل اتنی پیدا ہو جتنا مرتہن نے اس پر خرچہ کیا ہے۔

1۔کیا یہ فصل مرتہن کیلئے مرہونہ  چیزسے نفع اٹھانا شمار ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ فصل تو اس کے خرچہ کے مطابق نکلا ہے نہ کہ زائد،گویا کہ اپنا خرچہ وصول کیا ہے نہ کہ نفع۔

2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ پیدا شدہ فصل راہن کی ہوگی یا مرتھن کی؟ 

3۔تیسرا سوال یہ ہےکہ بغیر اذن راہن کے یہ تصرف اس کیلئے جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہےکہ  رہن کہتےہیں کسی مالی شے کو  دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا کہ اس سے یا اس کی قیمت سے بہ وقتِ تعذر اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو، یعنی اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت و وثیقہ قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔

اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک میں رہتی ہے،البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے،  نیز مرتہن (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  اٹھانے  کی اجازت نہیں ہوتی،اور اس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک (راہن)کی ملک قرار پاتی ہے۔

 نیز قرض کی مدّت پوری ہونے پر اولاً  قرض خواہ کو چاہیے کہ مالک سے قرض کا مطالبہ کرے، اگر قرض وصول نہ ہو تو مالک کی اجازت سے اس چیز کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے تو  شرعاً اس کی اجازت ہوگی، اور اس کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے تو  زائد رقم اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

اس تمہید کےبعد سائل کےسوالات کےجوابات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔صورتِ مسئولہ میں قرض کی مدت اگر باقی ہو تو مرتہن کا مرہونہ زمین سےفصل اگانا رہن سےفائدہ اٹھانےکےزمرےمیں آتاہےجوکہ شرعاًناجائز اورحرام ہے۔

2۔مرہونہ زمین سےپیداشدہ فصل راہن ہی کی ہوگی،  اگر مرتہن نے مذکورہ زمین سے فصل حاصل کی ہواور پیدا کردہ فصل راہن( مالک زمین )کےحوالہ نہ کی ہوتو اس کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ راہن مکمل قرض واپس کرے گااور مرتہن زمین والے(راہن) کی زمین کے ساتھ اس سے حاصل ہونے والی فصل بھی واپس کرےگا، کیوں کہ یہ نفع جو اس نے زمین سے حاصل کیا ہے وہ شرعاً مالکِ زمین کا ہے جس کالوٹانا ضروری ہے، اگر نہیں لوٹا ئے گا تو وہ سود ہوگا جوکہ حرام ہے۔

مرتہن کا شیئ ِمرہون سے فائدہ اٹھانا یااس میں کسی قسم کاتصرف کرنامطلقاًناجائزہے،خواہ   راہن کی اجازت سے ہویا بغیر اجازت کے ،بہرصورت شرعاً ممنوع ہیں۔،راہن کی اجازت کی صورت میں اس لیے ممنوع ہے کہ وہ نفع ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا، اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہے۔

الدرالمختار میں ہے:

"(هو) لغة: حبس الشئ،وشرعاً: (حبس شئ مالي) أي جعله محبوسا لأن الحابس هو المرتهن (بحق يمكن استيفاؤه) أي أخذه (منه) كلا أو بعضا كأن كان قيمة المرهون أقل من الدين".

(كتاب الرهن، ص:683، ط: دارالكتب العلمية)

رد المختار میں ہے:

"(‌ونماء ‌الرهن) ‌كالولد والثمر واللبن والصوف والوبر والأرش ونحو ذلك (للراهن) لتولده من ملكه (وهو رهن مع الأصل) تبعاً له."

(كتاب الرهن، 521/6، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وفي ‌الخلاصة ‌القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه.

 وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".

"لا ‌يحل ‌له ‌أن ‌ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم."

(باب المرابحة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام،166/5، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں