بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتہن کا مرہونہ چیز کرایہ پر دے کر کرایہ وصول کرنا


سوال

ہماری ایک  زمین تھی،پارٹنر شپ پر اس زمین پر مارکیٹ بنا ئی گئی  ،یعنی  زمین ہماری تھی  اور مارکیٹ پارٹنر  نے بنائی ،اس کے بعد مارکیٹ کی آدھی دوکانیں ہماری ہوئیں اور آدھی پارٹنر کی،ہم پر پارٹنر کا بیس ہزار ڈالر قرضہ تھا ، لیکن ہمارےپاس دینے  کےلیے پیسے نہیں تھے ،  جس کی وجہ سے اس نے  ہمارے حصہ کی ایک دوکان بندکررکھی تھی، آج سے تین سال پہلے    ہم نے  وہ دوکان بیس ہزار ڈالر کے بدلےگروی رکھوائی ، ،جو  دوکانیں ہمارے  حصے میں آئیں تقریبا ایک ہفتہ  کے بعد  ان میں بھی ہمارےاور چچا کے درمیان رضامندی سے   بٹوارہ ہوااور وہ گروی کی دوکان دوبارہ  ہمارے حصہ میں آئی ، اس دوران گروی دار بار بار اپنے قرض  کا مطالبہ کررہا تھا، تو ہمارے چچا نے اپنی دوکان  بیچ کر گروی کی رقم دے دی،  اور گروی کی دوکان اپنے پاس گروی کے طور پر رکھ لی، اب پوچھنا یہ ہے  کہ جب تک ہم اپنے چچا کا قرض ادا نہیں کرتے اس وقت تک گروی کی دوکان کا کرایہ  ہمارے چچا کے لیے لینا  شرعا درست   ہے  یانہیں؟یا وہ کرایہ ہمارا حق ہے؟

وضاحت : گروی دار نے ہماری دوکان  کرایہ پر دے دی تھی اور تین سال تک اس کا  کرایہ وصول کرتا  رہا ، جب چچا نے گروی دار کا قرض  ادا کیا تو  وہ دوکان اپنے پاس گروی کے طور پر رکھ لی ،اب وہ کہتے ہیں کہ جب تک میرا قرض ادا نہیں کروگے اس وقت تک کرایہ میں وصول کرتارہوں گا۔

جواب

واضح رہے کہ رہن(گروی شدہ چیز)پراصل مالک کی ملکیت بدستور برقرار رہتی  ہےاور مرتہن(جس کے پاس گروی رکھوائی گئی)کے لیے اس چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ،اس لیے کہگروی شدہ چیزقرض کے بدلے گروی رکھوائی گئی ہے،لہذا اس سے نفع اٹھانا اوراس کو  استعمال کرنا درحقیقت قرض پر نفع لینا ہے،جسے حدیث میں سود قرار دیا گیا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے پارٹنر نے جتنا عرصہ دوکان کا کرایہ خود وصول کیا  وہ ان کےلیے شرعا درست نہیں تھا  ، ان کےذمےلازم ہے کہ وہ وصول شدہ تمام کرایہ سائل کے حوالے کردےنیز  چچا نے جب سائل کی طرف سے گروی دار  کو ان کاقرضہ ادا کردیا دوکان آزاد کروائی اور پھر اپنے پاس بطور گروی رکھ لی،تو ان کےلیے بھی گروی کا کرایہ وصول کرناشرعا جائزنہیں،ان   کے ذمے لازم ہے کہ اب تک جتنا کرایہ وصول کرچکے ہیں  وہ سائل کے حوالے کردیں اور آئندہ کے لے بھی کرایہ  خودوصول نہ کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

«كل قرض جر منفعة، فهو ربا»

(مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327)

درمختار میں ہے:

(ونماء الرهن) كالولد والثمر واللبن والصوف والوبر والأرش ونحو ذلك (للراهن) لتولده من ملكه

(كتاب الرهن ، فصل في مسائل متفرقة:6/ 521ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".

(باب المرابحة والتولية ،فصل في القرض :6/482،ط:سعید)

وفيه أيضا:

"(لا انتفاع به مطلقًا) لا باستخدام، ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر، وقيل: لايحل للمرتهن؛ لأنه ربًا، وقيل إن شرطه كان ربًا وإلا لا. وفي الأشباه والجواهر: أباح الراهن للمرتهن أكل الثمار أو سكنى الدار أو لبن الشاة المرهونة فأكلها لم يضمن وله منعه، ثم أفاد في الأشباه: أنه يكره للمرتهن الانتفاع بذلك، وسيجيء آخر الرهن. (قوله: وقيل: لايحل للمرتهن) قال في المنح: وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملًا فتبقى له المنفعة فضلًا؛ فيكون ربًا، وهذا أمر عظيم........ويؤيده قول الشارح الآتي آخر الرهن إن التعليل بأنه ربا يفيد أن الكراهة تحريمية فتأمل. وإذا كان مشروطا ضمن كما أفتى به في الخيرية فيمن رهن شجر زيتون على أن يأكل المرتهن ثمرته نظير صبره بالدين.
قال ط: قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع، والله تعالى أعلم اهـ".

 (كتاب الرهن :6/ 482،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں