بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتدہ کے ساتھ موالات کا حکم


سوال

ایک آدمی کی بہن اسلام ترک کرچکی ہے، اور کئی سال تک بھائی نے اس نیت سے بہن کی مالی مدد کی کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائے، لیکن وہ ابھی تک مرتدہ ہے، کیا بھائی مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اس بہن کے ساتھ صلہ رحمی کے طور پر مزید مالی امدادکرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی مسلمان عورت مرتد ہو جائے (والعیاذ باللہ) تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اسلامی حکومت اسے گرفتار کرکے قید خانہ میں رکھے ،   اور اس پر  دوبارہ اسلام کو پیش کر کے اسلام لانے کی ترغیب دے، اور اس کے  دل میں اگر واقعی اسلام کے بارے میں کوئی شبہ پیدا ہواہو تو اس کا ازالہ کرے ، اور اس کا مغالطہ دور کرے، پھر اگر وہ  توبہ کرکے دوبارہ اسلام قبول کر لے تو اسے چھوڑ دے، لیکن اسلام لانے سے انکار کرنے کی صورت میں اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے مستقل قید میں رکھ کر روزانہ اسلام لانے کی دعوت دی جائے گی یہاں تک کہ یا تو وہ اسلام کو قبول کر لے یا اسی قید کی حالت میں مر جائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب کہ مذکورہ شخص کی بہن  اسلام کو چھوڑکر  مرتدہ  بن چکی ہے،چوں کہ یہ خطرناک نوعیت کا جرم ہے، اور بھائی کے  رشتہ دارانہ کوشش کے باوجود اس نے توبہ نہیں کی، تو یہ عورت کسی ہمدردی اور مالی مدد کی مستحق نہیں ، بلکہ اس کے بھائی اور دیگر رشتہ داروں اور اہلِ محلہ کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے اس کو قید خانہ میں ڈلوائیں، پھر اگر وہ توبہ کرکے اسلام قبول کرتی ہو تو پھر آئندہ کے لیے ایسی حرکت نہ کرنے کی عہد پر رہا کردے، بصورتِ دیگر جیل ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔

الغرض مذکورہ بھائی کا اپنی مرتدہ بہن کے بارے میں اس کی اصلاح کی کوشش کا مذکورہ شرعی طریقہ اپنانے کے بجائے اس کی مالی مدد کرکے اس کے ارتداد اور لادینیات پر برقرار رہنے دینا شرعاً جائز نہیں ، اور ایسا کرنا دینی غیرت کے بھی خلاف ہے، بلکہ کم ازکم درجہ یہ ہے کہ اس سے تمام رشتہ دار قطع تعلقی اور معاشرتی بائکاٹ کریں تا وقتیکہ وہ توبہ کرکے ایمان لے آئے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"فإن ‌هجرة ‌أهل ‌الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما."

(كتاب الأداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج:9، ص:230، ط:دار الفکر)

مجمع الاَنھر میں ہے:

"(ولا تدفع) الزكاة....وكذا لا يصرف إلى المرتد وينبغي أن لا يصرف إلى من لا يكفر من المبتدعة كما في القهستاني."

(كتاب الزكاة،  باب في بيان أحكام المصرف، ج:1، ص:222۔223، ط:دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وأما ‌المرأة ‌فلا ‌يباح ‌دمها ‌إذا ‌ارتدت، ولا تقتل عندنا، ولكنها تجبر على الإسلام، وإجبارها على الإسلام أن تحبس وتخرج في كل يوم فتستتاب ويعرض عليها الإسلام، فإن أسلمت وإلا حبست ثانيا، هكذا إلى أن تسلم أو تموت وذكر الكرخي - رحمه الله - وزاد عليه - تضرب أسواطا في كل مرة تعزيرا لها على ما فعلت وعند الشافعي - رحمه الله - تقتل لعموم قوله - عليه الصلاة والسلام - «من بدل دينه فاقتلوه» ولأن علة إباحة الدم هو الكفر بعد الإيمان، ولهذا قتل الرجل وقد وجد منها ذلك، بخلاف الحربية وهذا لأن الكفر بعد الإيمان أغلظ من الكفر الأصلي؛ لأن هذا رجوع بعد القبول والوقوف على محاسن الإسلام وحججه، وذلك امتناع من القبول بعد التمكن من الوقوف دون حقيقة الوقوف، فلا يستقيم الاستدلال.

(ولنا) ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «لا تقتلوا امرأة ولا وليدا» ولأن القتل إنما شرع وسيلة إلى الإسلام بالدعوة إليه بأعلى الطريقين عند وقوع اليأس عن إجابتها بأدناهما، وهو دعوة اللسان بالاستتابة، بإظهار محاسن الإسلام والنساء أتباع الرجال في إجابة هذه الدعوة في العادة، فإنهن في العادات الجارية يسلمن بإسلام أزواجهن على ما روي أن رجلا أسلم وكانت تحته خمس نسوة فأسلمن معه، وإذا كان كذلك فلا يقع شرع القتل في حقها وسيلة إلى الإسلام، فلا يفيد ولهذا لم تقتل الحربية بخلاف الرجل فإن الرجل لا يتبع رأي غيره، خصوصا في أمر الدين بل يتبع رأي نفسه، فكان رجاء الإسلام منه ثابتا، فكان شرع القتل مفيدا، فهو الفرق والحديث محمول على الذكور عملا بالدلائل صيانة لها عن التناقض."

(كتاب السير، فصل في بيان أحكام المرتدين، ج:7، ص:135، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن (كل مسلم ارتد فإنه يقتل إن لم يتب إلا) جماعة (المرأة والخنثى، ومن إسلامه تبعاً، والصبي إذا أسلم، والمكره على الإسلام، ومن ثبت إسلامه بشهادة رجلين ثم رجعا)...."(ولا يترك) المرتد (على ردته بإعطاء الجزية ولا بأمان مؤقت ولا بأمان مؤبد، ولا يجوز استرقاقه بعد اللحاق) بدار الحرب، بخلاف المرتدة، خانية.

 (قوله: بخلاف المرتدة) أي فإنها تسترق بعد اللحاق بدار الحرب وتجبر على الإسلام بالضرب والحبس ولا تقتل، كما صرح به في البدائع، ولا يكون استرقاقها مسقطاً عنها الجبر على الإسلام؛ كما لو ارتدت الأمة ابتداءً؛ فإنها تجبر على الإسلام، بحر."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:247، ط:سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"الجواب حامداً ومصلیاً:

جو شخص مذہبِ اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلے وہ مرتد ہے، اس سے موالات حرام ہے، جو اس سے موالات کرے وہ گناہ گار ہے اس کو اپنے اس فعل پر توبہ لازم ہے۔ فقط واللہ اَعلم۔"

(کتاب الاِیمان والعقائد، باب الکفریات، مرتد کے اَحکام کا بیان، ج:2، ص:544، ط:اِدارۃالفاروق)

امداد الاحکام میں ہے:

ان سے نفرت و کراہت زیادہ ظاہر کرنا چاہیے؛ لكون كفرهم أشد باقی شراء و بیع ان کے ساتھ جائز ہے، البتہ ان کی دعوت و ضیافت نہ قبول کی جائے، نہ ان کے ساتھ مدارات و ملاطفت کی جائے، مگر یہ کہ تالیفِ قلب سے یہ امید ہو کہ اسلام کی طرف عود کر آئےگا‘‘۔

(کتاب الحظر والاِباحۃ، معاملات المسلمین باَہل الکتاب والمشرکین، ج:4، ص:393، ط:مکتبۃ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144508100469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں