بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتد کی سزا قتل کیوں ہے؟


سوال

ہماری محلہ میں کچھ لوگ کرسچن ہوگئے ہیں، اور باقاعدگی  سے چرچ جاتے ہیں، اسلام سے خارج ہوگئے ہیں، ہماری نظر میں وہ  مرتد ہوگئے ہیں، اسلام میں مرتد کی سزا موت کیوں ہے؟ جب کہ اسلام تو کہتا ہے کہ دین میں جبر نہیں۔اگر کوئی اسلام کو چھوڑ کر کسی اور مذہب کو اختیار کرلیتا ہے تو اس کی سزا اسلام میں موت کیوں ہے؟وضاحت فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ  ارشاد باری تعالی  " لا اكراه في الدين" کا تعلق  اسلام قبول کرنے سے ہے، یعنی کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی مسلمان دینی احکامات کی پاسداری نہ کرتا ہو، یا وہ دین اسلام سے ہی منحرف ہوجائے العیاذ  باللہ تو ایسے شخص پر جبر کرنا اس آیت کے تحت داخل نہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پردہ فرما جانے کے بعد جب مسلمانوں کے بعض قبائل نے زکات ادا کرنے سے انکار کردیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے ایسے قبائل سے باقاعدہ  قتال کیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین میں جبر نہ ہونے کا  تعلق  کافروں سے ہے، لہذااگر کوئی مسلمان سرِ مو انحراف کرے گا، تو ایسے شخص پر جبر و اکراہ کیا جائے گا، لہذا  احکام دین کی خلاف ورزی  کرنےکی صورت  میں متنبہ   کرنے پر یہ بات عوام الناس میں جو  زبان زد  عام ہے کہ  " دین میں جبر نہیں ہے"  بالکل غلط ہے۔

ارشاد باری تعالی  ہے:

" لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "

 (البقرة: ٢٥٦)

معارف القرآن از مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ میں ہے:

’’خلاصہ تفسير:

دین (اسلام کے قبول کرنے) میں زبردستی (کا فِی نَفسِہ کوئی موقع) نہیں (کیوں کہ) ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے، (یعنی اسلام کا حق ہونا دلائل سے واضح ہوچکا ہے تو اس میں اکراہ کا موقع ہی کیا ہے، اکراہ تو غیر پسندیدہ چیز پر مجبور کرنے سے ہوتا ہے اور جب اسلام کی خوبی یقیناً ثابت ہے) تو جو شخص شیطان سے بداعتقاد ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خوش اعتقاد (یعنی اسلام قبول کرلے) تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں (اقوال ظاہری کے) اور خوب جاننے والے ہیں (احوال باطنی کے) 

معارف و مسائل:

اسلام کو مضبوط پکڑنے والا چوں کہ ہلاکت اور محرومی سے محفوظ رہتا ہے اس لیے اس کو ایسے شخص سے تشبیہ دی جو کسی مضبوط رسی کا حلقہ ہاتھ میں مضبوط تھام کر گرنے سے مامون رہتا ہے اور جس اسلام میں کسی قسم کی ہلاکت اور خسران نہیں ہے اور خود کوئی اسلام کو ہی چھوڑ دے تو اور بات ہے (بیان القرآن) 

اس آیت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے حالاں کہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم اس کے معارض ہے۔

اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اعتراض صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم لوگوں کو قبول ایمان پر مجبور کرنے کے لیے نہیں ہے، ورنہ جزیہ لے کر کفار کو اپنی ذمہ داری میں رکھنے اور ان کی جان ومال وآبرو کی حفاظت کرنے کے اسلامی احکام کیسے جاری ہوتے ، بلکہ دفع فساد کے لیے ہے، کیوں کہ فساد اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے جس کے درپے کافر رہتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ (٦٤: ٥)یہ لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد اور قتال کے ذریعے سے ان لوگوں کے فساد کو دور کرنے کا حکم دیا ہے، پس ان لوگوں کا قتل ایسا ہی ہے جیسے سانپ، بچھو اور دیگر موذی جانوروں کا قتل۔

اسلام نے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور اپاہج وغیرہ کے قتل کو عین میدان جہاد میں بھی سختی سے روکا ہے، کیوں کہ وہ فساد کرنے پر قادر نہیں ہوتے ،ایسے ہی ان لوگوں کے بھی قتل کرنے کو روکا ہے جو جزیہ ادا کرنے کا وعدہ کرکے قانون کے پابند ہوگئے ہوں۔

اسلام کے اس طرز عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ جہاد اور قتال سے لوگوں کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا، بلکہ اس سے وہ دنیا میں ظلم وستم کو مٹا کر عدل و انصاف اور امن وامان قائم رکھنا چاہتا ہے، حضرت عمر نے ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی تو اس کے جواب میں اس نے کہااَنَا عَجُوزٌ کبَیرۃ والمَوت الی قریبٌ، یعنی میں ایک قریب المرگ بڑھیا ہوں، آخری وقت میں اپنا مذہب کیوں چھوڑوں ؟ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کو ایمان پر مجبور نہیں کیا ،بلکہ یہی آیت تلاوت فرمائیلَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے۔

درحقیقت ایمان کے قبول پر جبر واکراہ ممکن بھی نہیں ہے، اس لیے کہ ایمان کا تعلق ظاہری اعضاء سے نہیں ہے ، بلکہ قلب کے ساتھ ہے اور جبرو اکراہ کا تعلق صرف ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے اور جہاد و قتال سے صرف ظاہری اعضاء ہی متأثر ہوسکتے ہیں، لہذا اس کے ذریعہ سے ایمان کے قبول کرنے پر جبر ممکن ہی نہیں ہے، اس سے ثابت ہوا کہ آیات جہاد و قتال آیتلَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے معارض نہیں ہیں۔ (مظہری، قرطبی)‘‘

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"يقول تعالى: لا إكراه في الدين أي لا تكرهوا أحدا على الدخول في دين الإسلام، فإنه بين واضح، جلي دلائله وبراهينه، لا يحتاج إلى أن يكره أحد على الدخول فيه، بل من هداه الله للإسلام، وشرح صدره، ونور بصيرته، دخل فيه على بينة، ومن أعمى الله قلبه وختم على سمعه وبصره، فإنه لا يفيده الدخول في الدين مكرها مقسورا."

( سورة البقرة، ١ / ٥٢١، رقم الآية: ٢٥٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

صحیح البخاری میں ہے:

"١٣٩٩ - حدثنا ‌أبو اليمان الحكم بن نافع: أخبرنا ‌شعيب بن أبي حمزة، عن ‌الزهري: حدثنا ‌عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود: أن ‌أبا هريرة رضي الله عنه قال: «لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان أبو بكر رضي الله عنه، وكفر من كفر من العرب، فقال عمر رضي الله عنه: كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله.

١٤٠٠ - فقال: والله لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها قال عمر رضي الله عنه: فوالله ما هو إلا أن قد شرح الله صدر أبي بكر رضي الله عنه. فعرفت أنه الحق.»"

( كتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة، ٢ / ١٠٥، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ: ’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے (اور کچھ نے زکات سے انکار کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کر سکتے ہیں "مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی شہادت نہ دےدیں اور جو شخص اس کی شہادت دےدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا"،اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکات اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکات کے لیے انکار کر دے)  کیونکہ زکات مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکات  میں چار مہینے کے (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔‘‘

لہذا صورتِ مسئولہ میں مرتد کی سزا شریعتِ مطہرہ نے  جو قتل مقرر کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مرتد  درحقیقت مذہب کا باغی ہوتا ہے، اور باغی کی سزا تمام مہذب ممالک کے قوانین میں قتل مقرر ہے، تاہم شریعت مطہرہ نے مرتد مرد و خاتون  کی سزا میں اتنی رعایت  رکھی ہے کہ  مرتد اگر  ہو تو ابتدائی طور پر  اسے تین دن تک گرفتار  رکھا جائے گا، اس دوران اسلام کے حوالے سے اس کے شک و شبہات  دور کرنے کی کوشش  کی جائے گی، پس اگر کوشش کامیاب  ہوجائے ، اور مرتد اسلام قبول کرنے پر راضی ہوجائے تو اسے آزاد کردیا جائے گا، تاہم اگر وہ اپنے ارتداد پر قائم رہتا ہے، تو تین دن بعد اسے قتل کردیا جائے گا، اور یہی حکم مرتد خاتون کا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ مرتد خاتون کو قتل نہیں کیا جائے گا، تاہم اسے قید رکھا جائے گا، تاوقتیکہ وہ توبہ تائب ہوکر  دوبارہ اسلام  میں داخل ہوجائے۔

گرفتار و قتل کا اختیار حکومت وقت کو ہے، حکومتِ وقت کے علاوہ عوام الناس میں سے کسی كو شریعت نے یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ مرتد کو بذات  خود  سزا دے، البتہ عوام الناس  کی ذمہ داری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وساطت سے اس ناسور کے خاتمہ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ (تفصیلی دلائل  کے لیے دیکھیے:جواہرالفقہ، جلد ٦، رسالہ :مرتد کی سزا اسلام میں)

تحفہ قادیانیت میں ہے:

’’تمام مہذب ملکوں، حکومتوں اور مہذب قوانین میں باغی کی سزا موت ہے، اور اسلام کا باغی وہ ہے جو اسلام سے مرتد ہوجائے، اس لیے اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے، لیکن اس میں بھی اسلام نے رعایت دی ہے، دوسرے لوگ باغیوں کو کوئی رعایت نہیں دیتے، گرفتار ہونے کے بعد اگر اس پر بغاوت کا جرم ثابت ہوجائے تو سزائے موت نافذ کردیتے ہیں، وہ ہزار معافی مانگے، توبہ کرے اور قسمیں کھائے کہ آئندہ بغاوت کا جرم نہیں کروں گا، اس کی ایک نہیں سنی جاتی اور اس کی معافی ناقابلِ قبول سمجھی جاتی ہے، اسلام میں بھی باغی یعنی مرتد کی سزا قتل ہے ، مگر پھر بھی اسے اتنی رعایت ہے کہ تین دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کو تلقین کی جاتی ہے کہ توبہ کرلے، معافی مانگ لے، تو سزا سے بچ جائے گا، افسوس ہے کہ پھر بھی اسلام میں مرتد کی سزا پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

اگر امریکا کے صدر کا باغی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے اور اس کی سازش پکڑی جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں، روس کی حکومت کا تختہ الٹنے والا پکڑا جائے یا جنرل ضیأ الحق کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا پکڑا جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس پر دنیا کے کسی مہذب قانون اور کسی مہذب عدالت کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن تعجب ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی پر اگر سزائے موت جاری کی جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سزا نہیں ہونی چاہئے، اسلام تو باغی مرتد کو پھربھی رعایت دیتا ہے کہ اسے تین دن کی مہلت دی جائے، اس کے شبہات دور کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے، معافی مانگ لے تو کوئی بات نہیں، اس کو معاف کردیا جائے گا، لیکن اگر تین دن کی مہلت اور کوشش کے بعد بھی وہ اپنے ارتداد پر اڑا رہے، توبہ نہ کرے تو اللہ کی زمین کو اس کے وجود سے پاک کردیا جائے، کیونکہ یہ ناسور ہے، خدانخواستہ کسی کے ہاتھ میں ناسور ہوجائے تو ڈاکٹر اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، اگر انگلی میں ناسور ہوجائے تو انگلی کاٹ دیتے ہیں اور سب دنیا جانتی ہے کہ یہ ظلم نہیں، بلکہ شفقت ہے، کیونکہ اگر ناسور کو نہ کاٹا گیا تو اس کا زہر پورے بدن میں سرایت کرجائے گا، جس سے موت یقینی ہے، پس جس طرح پورے بدن کو ناسور کے زہر سے بچانے کے لئے ناسور کو کاٹ دینا ضروری ہے اور یہی دانائی اور عقلمندی ہے، اسی طرح ارتداد بھی ملت اسلامیہ کے لئے ایک ناسور ہے، اگر مرتد کو توبہ کی تلقین کی گئی، اس کے باوجود اس نے اسلام میں دوبارہ آنے کو پسند نہیں کیا تو اس کا وجود ختم کردینا ضروری ہے، ورنہ اس کا زہر رفتہ رفتہ ملتِ اسلامیہ کے پورے بدن میں سرایت کرجائے گا۔ 

الغرض مرتد کا حکم ائمہ اربعہ کے نزدیک اور پوری امت کے علماء اور فقہاء کے نزدیک یہی ہے جو میں عرض کرچکا ہوں اور یہی عقل و دانش کا تقاضا ہے اور اسی میں امت کی سلامتی ہے۔‘‘

(تحفہ قادیانیت،  1 / 665 - 666)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں