بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرتد کا نکاح اور وراثت میں حصہ


سوال

مرتد آدمی کا اپنی مسلمان بیوی سے نکاح برقرار رہتا ہے  اور کیا مرتد آدمی اپنےوالد کی میراث میں حق دار ہوگا؟


جواب

بصورتِ مسئولہ جو شخص مرتد ہوجائے اس کا اپنی بیوی سے نکاح  فورا  ختم ہوجاتا ہے، اگر یہ شخص توبہ کرکے دوبارہ مسلمان ہوجائے تو اس کے لیے تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہے۔

جو شخص مرتد ہوجائے اور  اپنے والد  یا کسی بھی مسلمان مورث کی  وفات کے وقت بھی حالتِ ارتداد میں ہو تو وہ اس کی متروکہ جائیداد میں حصہ دار نہیں ہوتا، البتہ اگر مورث کی وفات سے پہلے توبہ کرکے مسلمان ہوجائے تو وراثت کا حق دار ہوتا ہے۔

’’أجمع أصحابنا علی أن الردة تبطل عصمة النکاح، وتقع الفرقة بینہما بنفس الردۃ إلخ۔‘‘

(فتاوى قاضیخان، کتاب السیر، باب الردۃ وأحکامہا،۳/ ۴۳۲ ط:مکتبہ زکریا دیوبند جدید)

’’المرتد لا يرث من مسلم ولا من مرتد مثله، كذا في المحيط‘‘

(الفتاوى الهندية 6/ 455 ط: دار الفكر) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201200381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں