بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مری بیوری کمپنی کے لیے کاٹن بنانے کا حکم


سوال

میں جس  پرائیوٹ ادارےBulleh Shah Packaging Kasur میں کام کرتا ہوں، یہاں مختلف شعبے ہیں، میں جس شعبے میں الیکٹریکل انچارج ہوں، وہاں گتے کے ڈبے (Corrugated Box) بنتے ہیں ،جن میں کمپنیاں اپنی پراڈکٹس پیک کرتی ہیں، ہم تقریبا ایک کروڑ تیس لاکھ ڈبے ایک مہینے میں بناتے ہیں، ایسی ہی ایک کمپنی مری بیوری (Murree Brewery) بھی ہے، جو کہ کولڈ ڈرنکس وغیرہ بناتی ہے، اپنی مصنوعات کی پیکنگ کے لیے یہ کمپنی بھی ہم سے ڈبے بنواتی ہے،یہ کمپنی دیگر مصنوعات کے ساتھ ساتھ شراب بھی بناتی ہے، جس کی پیکنگ کے لیے ہماری کمپنی سے ڈبے بنواتی ہے، ہمارے کچھ ساتھیوں نے پہلے بھی سیلز ٹیم سے بات کی تھی کہ یہ آرڈر مت لیا کریں، مگر وہ کہتے ہیں کہ بزنس ہے، ہم انکار نہیں کر سکتے، آپ سے راہ نمائی کی درخواست ہے ،کہ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ایسی کمپنی میں جاب درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کا مذکورہ کمپنی میں کام کرنا  درست ہے،البتہ اگر   واقعۃً  مذکورہ کمپنی شراب بھی تیار کرتی ہے،تو اس کے لیےوہ ڈبےتیار کرنا جو صرف شراب کی پیکنگ  کے لیے استعمال ہوتے ہیں درست نہیں، لیکن اس کے علاوہ ڈبے اس کمپنی کے لیے بھی بنانا درست ہوگا، مری بیوری وہ کاٹن شراب کے لیے استعمال کرتی ہے، اور  کمپنی  کو  معلوم ہے تو  کمپنی  والوں کو چاہیے کہ  جو  کاٹن  شراب کے لیے بنتے  ہیں، اس  سے اجتناب  کریں،اور باقی کاٹن مری بیوری  کے لیے بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} ."[المائدة: 2]

ترجمہ: "اور ایک دوسرے کی نیک کام اور پرہیزگاری میں مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی پر مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ بیشک اللہ کا سخت عذاب ہے۔ "

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ...(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة) لأن المعصية تقوم بعينه."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، ج:6، ص:391، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، ج: 4، ص:450، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں